سوال:
مفتی صاحب ! اگر عورت ملازمت کرتی ہو تو اس کی تنخواہ پر کس کس کا حق ہے؟ یا اس عورت پر اپنا مال کن کن لوگوں پر خرچ کرنا لازمی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ عورت کو اللہ رب العزت نے گھر کی زینت، امورِ خانہ داری کی اصلاح، والدین اور شوہر کی خدمت، اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کے لیے پیدا کیا ہے، یہی اس کی پیدائش کا اصل مقصد ہے۔
شریعت مطہرہ نے عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، بلکہ مردوں کو کسب معاش کا مکلف بنایا ہے، لہذا شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب ہے، اس لیے کسی عورت کو اگر معاشی تنگی کا سامنا نہ ہو، تو محض معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لیے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے، خاص طور پر جب کہ شوہر کی اجازت بھی نہ ہو، لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور والد، بھائی یا شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوں، تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت درج ذیل شرائط کے ساتھ ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی گنجائش ہوگی:
1) ملازمت کا کام فی نفسہ جائز کام ہو، ایسا کام نہ ہو، جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو۔
2)شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو۔
3)لباس پرکشش اور ایسا نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو۔
4) عورت بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے ساتھ، نیز خوشبو لگا کر نہ نکلے۔
5) ملازمت کرنے کی وجہ سے گھریلو امور میں لاپروائی نہ ہو، جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں۔
اگر مذکورہ تمام شرائط ملازمت کرنے کی جگہ میں پائی جائیں، تو وہاں کام کرنے کی گنجائش ہے۔
اس تفصیل کے بعد عورت کی کمائی کا حکم یہ ہے کہ عورت جو کچھ کمائے گی اس پر صرف اسی کا حق ہے، شریعت نے عورت پر کسی کا نان ونفقہ لازم نہیں کیا ہے، لیکن اگر والدین نادار ہوں، تو ان کا نفقہ اولاد پر لازم ہوگا، بشرطیکہ اولاد صاحب حیثیت ہو، اس حکم میں بیٹا اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، لہذا تنگدست والدین کا خرچہ ان کی صاحب حیثیت اولاد (بیٹے اور بیٹی) دونوں کے ذمہ لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ....الخ
و قوله تعالیٰ: (الأحزاب، الایة: 33)
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى....الخ
و قوله تعالیٰ: (الأحزاب، الایة: 53)
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن....الخ
مسند احمد: (341/31، ط: مؤسسة الرسالة)
عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ مِحْصَنٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَفَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «كَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟» قَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ، قَالَ: «فَانْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ»
الدر المختار مع رد المحتار: (باب النفقة، 621/3، ط: دار الفکر)
"(و) تجب النفقة (علی موسر) ولو صغیرا.... (النفقة لأصوله)... (الفقراء).... (بالسوية) بين الابن والبنت... (والمعتبر فيه القرب و الجزئية) فلو له ابن أو بنت بنت وأخ، النفقة على البنت أو ابنتها".
"(قوله: بالسوية بين الابن والبنت) وظاهر الرواية. وهو الصحيح، وبه يفتى. خلاصة، وهو الحق. فتح".
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن، رقم الفتویٰ: 143708200040
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی