سوال:
مفتی صاحب ! اگر دو فریقوں کے درمیان ایک پلاٹ کا یا گھر کے خرید و فروخت کا معاملہ طے پا جائے اور ایگریمینٹ ہو جائے، خریدار بیچنے والے کو کچھ رقم بیعانہ کے طور پر دے دے اور بقیہ رقم، گھر یا پلاٹ کے ٹرانسفر کی معیاد طے ہو جائے۔
تو مکمل رقم کی ادائیگی اور ٹرانسفر سے پہلے کیا خریدار بیعانہ کی رقم دینے کے بعد وہ گھر یا پلاٹ آگے بیچ سکتا ہے؟
جزاک اللہ خیر
جواب: صورت مسئولہ میں خریدار زمین کا مالک بن گیا ہے، کیونکہ زمین کا مالک بننے کیلیے صرف آپس میں ایجاب اور قبول ہی کافی ہے، لہذا اگر خریدار کو زمین آگے بیچنے میں بیچنے والے کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور خریدار زمین کو آگے حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو تو اس صورت میں خریدار کے لیے زمین آگے بیچنا شرعاً درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (126/6، ط: دار الكتاب الاسلامي)
قوله (صح بيع العقار قبل قبضه) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز....
وفي البناية إذا كان في موضع لا يؤمن أن يصير بحرا أو تغلب عليه الرمال لم يجز، وإنما عبر بالصحة دون النفاذ أو اللزوم لأن النفاذ، واللزوم موقوفان على نقد الثمن أو رضا البائع، وإلا فللبائع إبطاله.
شرح المجلة للخالد الاتاسی: (المادۃ: 253، 173/2، ط: مکتبة رشیدیة)
للمشتری ان یبیع المبیع لآخر قبل قبضہ ان کان عقارا۔
واشار بقولہ : للمشتری ان یبیع الخ : الی ان بیعہ جائز، لکن لایلزم من جواز البیع نفاذہ ولزومہ؛ فانھما موقوفان علی نقد الثمن او رضی البایع، والا فللبایع ابطالہ - ای ابطال بیع المشتری۔
امداد الاحکام: (409/3، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی