سوال:
مفتی صاحب ! زید نے بکر سے چوری کی اورسامان عمرو کوبیچ دیا، عمرو کو معلوم تھا کہ سامان چوری کا ہے، لیکن خرید لیا، یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمت بھی کم لگائی، عمرو نے اس دوران اس چیز کی مرمت کیلیے اپنی ذاتی رقم خرچ کی۔
جب بکرکو پتہ چلا تو اس نے پولیس کے ذریعے وہ سامان عمرو سے بغیر پیسے دیے وصول کرلیا، کیا بکر کا یہ عمل درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ چوری کے مال کا اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا شخص مالک نہیں بن سکتا، اگرچہ چوری کرنے والا اسے دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردے۔
پس صورت مسئولہ میں اصل مالک (بکر) کا اپنی مملوکہ چیز کو اثرو رسوخ کے ذریعے حاصل کرلینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبری: (باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا، 548/5، ط: دار الکتب العلمیة)
عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".
رد المحتار: (99/5، ط: سعید)
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی