سوال:
مفتی صاحب ! اگر کوئی آدمی کسی کو پیسے تحفہ میں یہ کہہ کر دے کہ آپ اس سے اپنے اور بچوں کیلئے کپڑے خرید لیں تو کیا ہم ان پیسے کو کسی اور مد میں استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ ہدیہ ملی ہوئی چیز یا رقم، جب قبضہ میں آجاتی ہے، تو ہدیہ دینے والے کی طرف سے کسی خاص مصرف میں وہ رقم خرچ کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا اسے اپنی دوسری ضروریات میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر ہدیہ دینے والے کی خوشی کی رعایت کی جائے تو اچھا ہے۔
نیز واضح رہے کہ عام طور پر بچوں کو جو تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں، اس میں عرف کا اعتبار کیا جائیگا، بعض دفعہ وہ تحفہ چھوٹی سی نقد رقم کی صورت میں ہوتا ہے، مثلاً : دس، بیس روپے وغیرہ، اس صورت میں یہ رقم بچے کی ہی ملکیت ہوگی، وہ جیسے چاہے اسے خرچ کرے، اس صورت میں اس کے والدین بھی اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس میں تصرف نہیں کر سکتے۔
البتہ بعض دفعہ وہ رقم یا چیزیں ظاہراً بچے کے ہاتھ میں دی جاتی ہیں، لیکن عرفاً وہ اس کے والدین کو دینا مقصود ہوتی ہیں، اس صورت میں ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہونگے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکتے ہیں۔
پھر اس میں بھی تفصیل ہے کہ اگر وہ ھدیہ (تحفہ) والد کے رشتہ داروں کی طرف سے دیا گیا ہے، تو اس کا مالک والد ہوگا، اور اگر والدہ کے رشتہ داروں کی طرف سے دیا گیا ہو، تو اس کی مالکہ والدہ ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
العنایة شرح الھدایة: (19/9)
الْهِبَةُ عَقْدٌ مَشْرُوعٌ لِقَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «تَهَادَوْا تَحَابُّوا» وَعَلَى ذَلِكَ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ (وَتَصِحُّ بِالْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ وَالْقَبْضِ) أَمَّا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ فَلِأَنَّهُ عَقْدٌ، وَالْعَقْدُ يَنْعَقِدُ بِالْإِيجَابِ، وَالْقَبُولِ، وَالْقَبْضُ لَا بُدَّ مِنْهُ لِثُبُوتِ الْمَلِكِ".
الدر المختار: (688/5)
(وَ) حُكْمُهَا (أَنَّهَا لَا تَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ) فَهِبَةُ عَبْدٍ عَلَى أَنْ يُعْتِقَهُ تَصِحُّ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی