سوال:
مفتی صاحب ! اگر کوئی آدمی کسی کو پیسے تحفہ میں یہ کہہ کر دے کہ آپ اس سے اپنے اور بچوں کیلئے کپڑے خرید لیں تو کیا ہم ان پیسے کو کسی اور مد میں استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہےکہ ہدیہ ملی ہوئی چیز یا رقم، جب قبضہ میں آجاتی ہے تو ہدیہ دینے والے کی طرف سے کسی خاص مصرف میں وہ رقم خرچ کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا اسے اپنی دوسری ضروریات میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر ہدیہ دینے والے کی خوشی کی رعایت کی جائے تو اچھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
العنایة شرح الھدایة: (19/9)
الْهِبَةُ عَقْدٌ مَشْرُوعٌ لِقَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «تَهَادَوْا تَحَابُّوا» وَعَلَى ذَلِكَ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ (وَتَصِحُّ بِالْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ وَالْقَبْضِ) أَمَّا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ فَلِأَنَّهُ عَقْدٌ، وَالْعَقْدُ يَنْعَقِدُ بِالْإِيجَابِ، وَالْقَبُولِ، وَالْقَبْضُ لَا بُدَّ مِنْهُ لِثُبُوتِ الْمَلِكِ".
الدر المختار: (688/5)
(وَ) حُكْمُهَا (أَنَّهَا لَا تَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ) فَهِبَةُ عَبْدٍ عَلَى أَنْ يُعْتِقَهُ تَصِحُّ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی