سوال:
مفتی صاحب ! ہم مستحق لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے دسترخوان بنانا چاہ رہے ہیں، زکوۃ کی رقم ہم دسترخوان پر استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، دسترخوان پر امیر غریب سب بیٹھتے ہیں، اس لیے ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم کھانا دسترخوان پے بیٹھا کرنہیں کھلائینگے، بلکہ کھانے کے پیکٹ بنا کر 20 روپے کا فروخت کرینگے تو کیا یہ جو 20 روپے فروخت کی رقم رکھی ہے، ہمارا یہ طریقہ درست ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں خرید و فروخت کا معاملہ ہورہا ہے٬ جس میں کھانے کا پورا پیکٹ بیس(20) روپے کا عوض بن رہا ہے٬ خریدار سارے پیکٹ کو بیس روپے کے عوض میں خرید رہا ہے٬ جبکہ زکوٰۃ کو کسی چیز کے عوض دینا شرعا درست نہیں٬ نیز مذکورہ طریقہ کار میں مستحق زکوٰۃ اور غیر مستحق زکوٰۃ افراد کی تفریق نہیں ہے٬ کوئی بھی شخص بیس(20) روپے دیکر پیکٹ لےسکتا ہے٬ جبکہ زکوٰۃ صرف ان افراد کو دی جاسکتی ہے، جن کے بارے میں معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہیں٬ غیر مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ دینا شرعا درست نہیں۔
لہذا مذکورہ بالا دو وجوہات کی بناء پر سوال میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق زکوٰۃ کی ادائیگی شرعا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (کتاب الزکوة، الباب الاول، 170/1، ط: دار الفکر)
"اما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى"
البناية شرح الهداية: (باب من یجوز دفع الصدقات و من لایجوز، 450/3، ط: دار الکتب العلمیة)
"(ولهذا يأخذ وإن كان غنيا) ش: أي ولأجل استحقاقه بطريق الكفاية لأجل عمله يأخذ العامل، وإن كان غنيا لأن ما يأخذه هو عوض عن عمله والزكاة لا تجوز أن تدفع عوضا عن شيء"
مرقاۃ المفاتیح: (باب فضل الصدقة، 338/4)
"(الصدقۃ) ہي ما یخرجہ الإنسان من مالہ، علی وجہ القربۃ واجباً کان أو تطوعاً"
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی