عنوان: فجر کی نماز کے دوران سورج طلوع ہوجائے، تو نماز کا حکم(5129-No)

سوال: مفتی صاحب ! فجر کی نماز پڑھتے ہوئے آفتاب طلوع ہو جائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب: مذکورہ مسئلہ کی بنیاد ترمذی شریف کی ایک روایت ہے، جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:عن ابي هريره رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ادرك من الصبح ركعۃ قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح ومن ادرك من العصر ركعۃ قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر۔
(ج:1 ص:45 باب ما جاء فیمن ادرک رکعۃ من العصر قبل ان تغرب الشمس)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پالی، تو اس نے فجر کی نماز پالی، اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پالی، اس نے عصر کی نماز پالی۔
ائمہ اربعہ کا موقف:
اس حدیث شریف کے دو جز ہیں، دوسرا جز (من ادرک من العصر رکعۃ قبل ان تغرب الشمس فقد ادرک العصر) تمام ائمہ کرام کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ جس نے عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی سورج غروب ہونے سے پہلے پالی، تو اس کی عصر کی نماز ہو جائے گی، اس بارے میں تمام ائمہ کرام متفق ہیں، لیکن اس حدیث شریف کے پہلے جز کی بنیاد پر ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف رائے ہوا ہے کہ جس نے فجر کی نماز کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی، کیا اس کو فجر کی نماز مل گئی یا نہیں؟ ائمہ ثلاثہ اور جمہور محدثین کے نزدیک اس صورت میں بھی اس کی نماز ہو جائے گی، اس کو بعد میں نماز کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے، وہ فجر اور عصر میں کوئی فرق نہیں کرتے، البتہ احناف کے نزدیک اس صورت میں اس کی فجر کی نماز فاسد ہوجائے گی، اور سورج طلوع ہونے کے بعد اس کی قضا لازم ہوگی۔
ائمہ ثلاثہ کے دلیل:
ائمہ ثلاثہ اور جمہور محدثین اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ حدیث شریف واضح اور نص ہے، لہذا اس کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے جس طرح عصر کی نماز ادا ہو جائے گی، اسی طرح فجر کی نماز بھی ادا ہو جائے گی۔
احناف کی دلیل:
احناف فرماتے ہیں کہ تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہیں، ان میں سے ایک سورج طلوع ہونے کا وقت بھی ہے، لہذا قاعدے "اذا تعارضا تساقطا" کے تحت ہم نے قیاس کی طرف رجوع کیا، تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ فجر کی نماز فاسد اور عصر کی نماز درست ہو جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر کی نماز میں کوئی وقت ناقص نہیں ہے، بلکہ پورا وقت کامل ہے، لہذا جو نماز فجر کے آخری وقت میں شروع کر رہا ہے، اس پر وجوب کامل ہوا ہے، لیکن سورج طلوع ہونے کی وجہ سے ادائیگی ناقص ہوگئی، اور وجوب کامل کی صورت میں اگر ادائیگی ناقص ہو، تو وہ مفسد صلاۃ ہے، اس کے برخلاف عصر کا آخری وقت اصفرار سے لے کر غروب تک نماز کا ناقص وقت ہے، لہذا جو شخص عصر کے آخری وقت میں نماز شروع کر رہا ہے، اس پر وجوب ناقص ہوا اور درمیان میں سورج غروب ہونے کی وجہ سے ادائیگی بھی ناقص ہوئی، تو جیسا وجوب ہوا تھا ویسے ہی نماز کی ادائیگی ہوئی، لہذا یہ نماز فاسد نہیں ہو گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ نماز کے وجوبِ ادا کا سبب اس سے متصل جزء ہوتا ہے، اور وہ جزء فجر میں کامل اور عصر میں ناقص ہے، اور نماز کے دوران طلوع وغروب ہونے سے نماز مکروہ اور ناقص ہوجاتی ہے، پس فجر میں جیسے کامل واجب ہوئی تھی، سورج طلوع ہونے کی وجہ سے ویسی کامل ادا نہیں کی، اس لیے اس کا اعادہ ضروری ہے، اور عصر میں چونکہ مکروہ وقت ہونے کی وجہ سے ناقص واجب ہوئی تھی اور ناقص ہی ادا کرلی، اس لیے اس کا اعادہ واجب نہیں ہے۔
متاخرین احناف کا موقف:
متاخرین احناف (جس میں علامہ شامی رحمہ اللہ اور سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ بھی شامل ہیں) نے عوام الناس کی دینی مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے اس وقت نماز ادا کرنے والے عامی شخص کو نماز پڑھنے سے روکنے سے منع کیا ہے کہ مبادا مسئلہ سمجھنے کے بجائے وہ نماز ہی ترک نہ کردے، اس لیے اگر کوئی عامی شخص ایسے وقت نماز شروع کردے کہ فجر کا وقت ختم ہونے والا ہو، اور غالب گمان یہ ہو کہ نماز کے دوران فجر کا وقت ختم ہوجائے گا، تو اسے روکنا نہیں چاہیے، نرمی کے ساتھ معقول انداز میں مسئلہ سمجھا دینا چاہیے، اگر وہ سمجھ جائے تو بہتر، ورنہ اسے نماز کے اعادے کا نہ کہا جائے، کیوں کہ بہرحال بعض ائمہ مجتہدین کے مطابق اس کی نماز ادا ہوجاتی ہے، البتہ اسے عادت بنانے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی اس کی ترغیب دی جائے گی، یہی معتدل رائے اور حکمت کا تقاضا بھی ہے۔
البتہ عوام کو مسئلہ یہی بتایا جائے کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ادا کی جائے، اگر نماز کے دوران سورج طلوع ہوگیا تو نماز باطل ہوجائے گی، کیوں کہ صحیح احادیث میں اس وقت نماز کی ممانعت منقول ہے اور یہ روایات فقہاءِ احناف کے ہاں راجح ہیں، اور ایسی نماز کا اعادہ کیا جائے، اور اگر نماز شروع نہ کی ہو اور اس وقت سورج طلوع ہونے لگے، تو نماز کو مؤخر کرے، عین طلوع کے وقت نماز شروع کرنا سب ائمہ کے نزدیک منع ہے، چنانچہ جب اشراق کا وقت ہوجائے، تب فجر کی نماز قضا پڑھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (باب الأوقات التي نھی عن الصلاۃ فیھا، رقم الحدیث: 831، 276/1، ط: بیت الافکار)
عن عقبۃ بن عامر الجہني رضي اللّٰہ عنہ قال: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلي فیہن أو أن نقبر فیہن موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع، وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس، وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔

الدر المختار مع رد المحتار: (372/1)
(وغروب، إلا عصر يومه) فلايكره فعله لأدائه كما وجب بخلاف الفجر، والأحاديث تعارضت فتساقطت، كما بسطه صدر الشريعة.
(قوله: وغروب) أراد به التغير، كما صرح به في الخانية حيث قال: عند احمرار الشمس إلى أن تغيب، بحر وقهستاني. (قوله: إلا عصر يومه) قيد به؛ لأن عصر أمسه لايجوز وقت التغير لثبوته في الذمة كاملًا، لاستناد السببية فيه إلى جميع الوقت، كما مر. (قوله: فلايكره فعله)؛ لأنه لايستقيم إثبات الكراهة للشيء مع الأمر به، وقيل: الأداء أيضًا مكروه. اه. كافي النسفي.
والحاصل: أنهم اختلفوا في الكراهة في التأخير فقط دون الأداء أو فيهما، فقيل بالأول، ونسبه في المحيط والإيضاح إلى مشايخنا، وقيل بالثاني، وعليه مشى في شرح الطحاوي والتحفة والبدائع والحاوي وغيرها على أنه المذهب بلا حكاية خلاف، وهو الأوجه؛ لحديث مسلم وغيره عن أنس -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «تلك صلاة المنافق، يجلس يرقب الشمس حتى إذا كانت بين قرني الشيطان قام ينقر أربعًا لايذكر الله فيها إلا قليلًا» اه حلية، وتبعه في البحر. ولايخفى أن كلام الشارح ماش على الأول لا الثاني، فافهم، قال في القنية: ويستوفي سنة القراءة؛ لأنّ الكراهة في التأخير لا في الوقت. اه.
(قوله: لأدائه كما وجب)؛ لأن السبب هو الجزء الذي يتصل به الأداء، وهو هنا ناقص فقد وجب ناقصًا فيؤدى كذلك. وأما عصر أمسه فقد وجب كاملًا؛ لأن السبب فيه جميع الوقت حيث لم يحصل الأداء في جزء منه، لكن الصحيح الذي عليه المحققون أنه لا نقصان في ذلك الجزء نفسه بل في الأداء فيه لما فيه من التشبه بعبدة الشمس، ولما كان الأداء واجبًا فيه تحمل ذلك النقصان، أما إذا لم يؤد فيه والحال أنه لا نقص في الوقت أصلًا وجب الكامل، ولهذا كان الصحيح وجوب القضاء في كامل على من بلغ وأسلم في ناقص ولم يصل فيه كما تقدم. والحاصل كما في الفتح أن معنى نقصان الوقت نقصان ما اتصل به فعل الأركان المستلزم للتشبه بالكفار.
فالوقت لا نقص فيه، بل هو كغيره من الأوقات إنما النقص في الأركان فلايتأدى بها ما وجب كاملًا، وهذا أيضًا مؤيد للقول بأن الكراهة في التأخير والأداء خلاف ما مشى عليه الشارح، وما ذكره في النهر بحثًا لبعض الطلبة مذكور مع جوابه في شرح المنية وغيره، وأوضحناه فيما علقناه على البحر.
(قوله: بخلاف الفجر إلخ) أي فإنه لايؤدي فجر يومه وقت الطلوع؛ لأنّ وقت الفجر كلّه كامل فوجبت كاملة، فتبطل بطرو الطلوع الذي هو وقت فساد".

و فیه ایضاً: (370/1)
وكرہ تحریمًا صلاة .... (مع شروق) إلا العوام، فلایمنعون من فعلها؛ لأنهم یتركونها، والأداء الجائز عند البعض أولى من الترك.

و فیه ایضاً: (373/1)
أجیب بان التعارض لما وقع بینه وبین النھي عن الصلاة في الأوقات الثلاثة رجعنا إلي القیاس كما هو حکم التعارض، فرجحنا حکم هذا الحدیث في صلاة العصر و حکم النھي في صلاة الفجر، كذا في شرح النقایة.

مستفاد از درس ترمذی: (446/1- 452)

کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144201201107

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3546 Sep 06, 2020
fajar ki namaz kay doraan sooraj tuloo hojaye to namaz ka hukum, If the sun rises during Fajar prayer, then the ruling / order of prayer

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.