سوال:
مفتی صاحب ! معلوم یہ کرنا ہے کہ میری ایک دکان ہے، جو کرایہ پر دینی ہے، حجام (نائی) کرایہ پر لینا چاہ رہا ہے، میرے دوست نے بتایا ہے کہ نائی کو دکان دینا جائز نہیں ہے۔ براہ کرم آپ شرعی حکم سے مطلع فر مادیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: اگر حجام (نائی) لوگوں کی داڑھیاں مونڈنے اورغیر شرعی کام کرنے کی خدمات انجام دیتا ہو، تو اس کو دکان کرایہ پر دکان دینا مکروہ ہے، بصورتِ دیگر اگر وہ یہ خدمات انجام نہیں دیتا ہو، تو اسے کرایہ پر دکان دینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 2)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ ....الخ
فقه البیوع: (186/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
و ان لم یکن محرکا و داعیا، بل موصلا محضا، وھو مع ذلک سبب قریب بحیث لا یحتاج فی اقامۃ المعصیۃ بہ الی احداث صنعۃ من الفاعل، کبیع السلاح من اھل الفتنۃ، وبیع الامرد ممن یعصی بہ واجارۃ البیت ممن یبیع فیہ الخمر او یتخذہ کنیسۃ او بیت نار وامثالھا فکلہ مکروہ تحریما بشرط ان یعلم بہ البائع والمؤجر، من دون تصریح بہ باللسان، فانہ ان لم یعلم کان معذورا وان علم و صرح کان داخلا فی الاعانۃ المحرمۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی