سوال:
حضرت ! ہمارے گاؤں میں جب لڑکی بھاگ کر شادی کرتی ہے، تو ہمارے علاقے کے معتبر حضرات بعد میں دونوں خاندان کی صلح کراتے ہیں، صلح میں لڑکے کے اوپر خرچہ رکھا جاتا ہے، (چاول، بکرے وغیرہ کا خرچہ لڑکا اٹھاتا ہے۔) اگر لڑکا خرچہ نہ اٹھائے، تو صلح نہیں ہوتی۔ تو کیا لڑکے سے یہ خرچہ لینا جائز ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں شرعاً کسی جرم کی سزا میں مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے، لہذا کسی پر مالی جرمانہ عائد کرنا، یا اس کو زبردستی وصول کر کے جرگہ کرنے والوں کو کھانا کھلانے میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
ایسی صورت میں وہ لی جانے والی رقم اس کے مالک کو واپس کرنا لازم ہے، نیز شرعی قوانین کے بر خلاف فیصلہ کرنا خود ایک گناہ ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ)
(سورۃ المائدہ: 47)
ترجمہ:
''اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ فاسق ہیں''۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 188)
وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَo
سنن الدار قطنی: (423/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عمرو بن يثربي , قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى فسمعته يقول: «لا يحل لامرء من مال أخيه شيء إلا ما طابت به نفسه» , فقلت حينئذ: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت إن لقيت غنم ابن عم لي فأخذت منها شاة فاجتزرتها أعلي في ذلك شيء؟ , قال: «إن لقيتها نعجة تحمل شفرة وأزنادا فلا تمسها».
نصب الراية:
اسناده جيد.
مجمع الأنہر: (باب التعزیر، 609/1، ط: بیروت)
"ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجانی فی المذهب"۔
البحر الرائق: (باب التعزیر، 41/5)
"وفی شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت فی ابتداء الاسلام ثم نسخ".
رد المحتار: (مطلب فی التعزیر بأخذ المال، 61/4)
"والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال".
و فیه أیضا: (مطلب فی التعزیر بأخذ المال، 61/4)
"لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی".
الھندیة: (167/2، ط: دار الفکر)
التعزير قد يكون بالحبس وقد يكون بالصفع وتعريك الأذن وقد يكون بالكلام العنيف وقد يكون بالضرب وقد يكون بنظر القاضي إليه بنظر عبوس كذا في النهاية وعند أبي يوسف – رحمه الله تعالى – يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز كذا في فتح القدير. ومعنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنده مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی