سوال:
مفتی صاحب!
جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو اس وقت دونوں کی عمریں کتنی تھیں؟
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر بوقت ِنکاح چھ اور بوقت ِرخصتی نو برس، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چوّن (54) سال تھی، چنانچہ اس کا ذکر صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابوداود اور سنن نسائی، ان چاروں کتابوں میں مذکور ہے۔
حضرت عائشہ کے نکاح پر عقلی اعتراضات:
اہل اسلام میں جب تک دین کی وسعت اور تقوی کا عنصر غالب رہا، کسی فرد نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس عمر میں شادی کو غیر معقول خیال نہیں کیا، مگر آج جبکہ ہر طرف کفر والحاد کا غلبہ ہے اور تجدد کا دور دورہ ہے، اس نکاح پر عقلی اعتراضات وارد کئے جارہے ہیں، اس موقع پر جو سوالات آج کل عموماً اٹھائے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسی کمسن لڑکی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟
2۔ کیا اس عمر کی لڑکی دلہن بننے اور ازدواجی ضرورت کے رفع کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟
اعتراضات کے جوابات
حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا جب انتقال ہوگیا، تو آپ صلى الله علیه وسلم نے یہ ضروری سمجھا کہ آپ صلى الله علیه وسلم کے نکاح میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں، جنہوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی کھولی ہو، اور جو نبی صلى الله علیه وسلم کے گھرانے میں آ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو، اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا مؤثر ترین ذریعہ بن سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو منتخب فرمایا اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے آپ صلى الله علیه وسلم کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے نزدیک چھ سال تھی، اور تین سال بعد جب وہ نو سال کی ہوچکی تھیں، آپ کی رخصتی کر دی گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی، اسوئہ حسنہ اور آنحضرت صلى الله علیه وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا، اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (2210) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں، اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام دنیائے اسلام آپ کے فضل و کمال کی معترف ہے۔
"الاستیعاب" میں عطار بن ریاح جیسے جلیل القدر بزرگ سے مروی ہے:
«کانت عائشة أفقه الناس وأعلم الناس وأحسن الناس رأيا فی العامة»
(استیعاب علی الاصابة: ج: 4، ص:1883 )
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا تمام لوگوں میں زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ علم والی اور نہایت پختہ رائے رکھنے والی تھیں۔"
اسی کتاب میں امام ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ حضرت مسروق فرماتے تھے:
«رأيت مشيخة من أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الأکابر يسئلونها عن الفرائض۔
( استیعاب، ج:4، ص:1883)
ترجمہ:
"میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے فرائض کے مسائل دریافت کیا کرتے تھے"
ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ میرے والد مکرم فرمایا کرتے تھے:
«ما رأيت أحدا أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة رضی الله عنها۔
(استیعاب، ج:4، 1883)
ترجمہ:
"میں نے فقہ، طب، اور شعر میں کسی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑا عالم نہیں پایا،"
امام زہری جو صحابہ کرام کے حالات سے بہترین واقفیت رکھنے والے اور علم حدیث اور فقہ کے مسلمہ امام ہیں، ان کا بیان ہے کہ
«لو جمع علم عائشة إلی علم جميع أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلم جميع النساء لکان علم عائشة أفضل۔
( استیعاب، ج:4 ص:1883، ط: دار الجیل)
ترجمہ:
"اگر حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے، اور تمام ازواجِ مطہرات اور دیگر تمام عورتوں کا دوسرے پلہ میں، اور یہ تمام علم سے آراستہ ہو کر آئیں، تو پھر بھی حضرت عائشہ رضی الله عنہا ہی کے علم کا پلہ بھاری رہے گا۔"
ابو بردہ اپنے والد ابوموسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے:
«ما أشکل علينا أمر فسألنا عنه عائشة إلا وجدنا عندها فيه علما۔
(اصابہ فی تمییز الصحابہ، ج:8، ص:233، دار الکتب العلمیہ)
ترجمہ:
مشکل سے مشکل مسئلہ بھی حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے دریافت کیا جاتا تو اس کے متعلق بھی علم ہمیں ان کے پاس موجود نظر آتا تھا۔"
ان واقعات و حالات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو قدرت کی طرف سے ایسی مافوق العادت استعداد و قابلیت ودیعت کی گئی تھی کہ عرب کیا ساری دنیا کی عورتوں میں اب تک اس کی نظیر نہیں پائی گئی۔
2) بعض افراد کے ذہن میں یہ اشکال پایا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی رخصتی اس قدر کم سنی میں کی گئی کہ ان میں وہ اہلیت وصلاحیت پیدا ہی نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، یہ اعتراض حقیقتاً موجودہ دور اور گزشتہ دور کی بدلتی ہوئی آب و ہوا، اور اُس دور کے جسمانی قویٰ کے ٹھوس ہونے سے لاعلم ہونے کے سبب ہے، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے جسمانی قوی کے بہتر ہونے کے متعلق ابوداؤد میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت مذکور ہے کہ "میری والدہ نے چاہا کہ میں قدرے موٹی ہو جاؤں، تاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیجا جاسکے، مگر مجھے ان کی حسبِ منشا کسی چیز سے فائدہ نہ ہوا، حتیٰ کہ انہوں نے مجھے ککڑی اور کھجور ملا کر کھلائی، تو اس سے میں خوب موٹی ہوگئی“۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 3903)
آج سے تقریباً نصف صدی قبل جسمانی قویٰ کے ٹھوس ہونے کے سبب لڑکیوں کی شادی کا بارہ، تیرہ سال کی عمر میں ہو جانا معمول کی بات تھی، آج سے محض چونتیس سال پہلے برازیل میں نو سالہ لڑکی کے ماں بننے کی خبر روزنامہ جنگ اخبار کراچی (10 اپریل، 1086، ص:10) میں شائع ہو چکی ہے، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا نکاح آج سے چودہ سو سال پہلے ہوا ہے، اس وقت جسمانی قویٰ بہت بہتر ہوا کرتے تھے، اس وقت کے جسمانی قوی کا یہ عالم تھا کہ سترہ سال کی عمر میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کو لشکر کا سردار بنا کر بھیجا گیا تھا، چنانچہ آج کے سترہ سال کے بچے اور اس زمانے کے سترہ سال کے بچے میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے، لہذا یہ اشکال آج کی عمروں اور قوی کو سامنے رکھ کر نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس خطے اور اس زمانے کے مخصوص جغرافیائی حالات کو سامنے رکھا جائے، تو یہ اشکال ختم ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 3894)
حَدَّثَنِي فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ , فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ , فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي فَوَفَى جُمَيْمَةً فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي فَصَرَخَتْ بِي , فَأَتَيْتُهَا لَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي , فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّى أَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ وَإِنِّي لَأُنْهِجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي , ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي , ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ , فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ , فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى , فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 3481)
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ، وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا، وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 3903)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سَيَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: أَرَادَتْ أُمِّي أَنْ تُسَمِّنَنِي لِدُخُولِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْبَلْ عَلَيْهَا بِشَيْءٍ مِمَّا تُرِيدُ حَتَّى أَطْعَمَتْنِي الْقِثَّاءَ بِالرُّطَبِ فَسَمِنْتُ عَلَيْهِ كَأَحْسَنِ السَّمَنِ .
الھدایة: (356/3)
وادنی المدۃ لذلک فی حق الغلام اثنا عشرۃ سنۃ، وفی حق الجاریۃ تسع سنین۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی