سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! ایک بندہ تبلیغ میں چار مہینے کے لیے گھر سے نکلا، رائیونڈ مرکز سینکڑوں میل دور ہے، اس سے متعلق چند سوالات کے جوابات درکار ہیں:
(1) رائیونڈ جاتے وقت اپنے شہر سے نکل کر نمازِ قصر کب شروع کرے گا؟
(2) اپنے شہر کے حدود کا تعین کیسے ہوگا؟
(3) رائیونڈ میں نماز قصر ادا کرے گا؟
(4) رائیونڈ سے 35 دن تشکیل میں نماز قصر ادا کرے گا؟
(5) رائیونڈ سے 12 دن تشکیل میں نماز قصر ادا کرے گا؟
(6) رائیونڈ سے یا مقام تشکیل سے اپنے گھر واپس جاتے ہوئے راستے میں نماز قصر ادا کرے گا؟
جواب: (1,2,3) جو شخص اپنے شہر یا علاقے سے باہر سفر کے ارادے سے نکلے، اور مسافتِ سفر اڑتالیس میل یا 77.24 کلو میٹر، یا اس سے زائد ہو، تو ایسے شخص پر اپنے شہر کی آبادی اور حدود سے نکلنے کے بعد چار رکعت والی فرض نماز میں قصر کرنا لازم ہوجاتا ہے، اور جس جگہ سفر کا ارادہ ہو، اس شہر یا بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو وہاں بھی قصر نماز پڑھنا لازم ہوگا۔
(4,5) اگر جماعت کی تشکیل کسی شہر یا بڑے گاؤں یا بستی میں 15 دن یا اس سے زائد کی ہو، اور اس علاقے کی کئی مساجد میں جانا ہو، تو اس شہر یا بستی میں وہ جماعت مقیم کہلائے گی، اور پوری نماز پڑھیں گے۔ اور اگر کئی بستیوں میں تشکیل ہو، اور ہر تین دن بعد یا کچھ دن بعد بستی تبدیل کرکے دوسری بستی یا گاؤں میں جانا پڑتا ہو، جس کا نام وغیرہ بھی الگ ہو، اور مقامی حضرات کے ہاں بھی وہ بستی بالکل علیحدہ شمار ہوتی ہو، تو اس صورت میں چوں کہ جماعت ایک مقام پر 15 دن سے کم ٹھہر رہی ہے، لہذا جماعت مسافر کہلائے گی اور اس صورت میں وہ قصر نماز پڑھیں گے۔
(6) مسافر جب تک اپنے وطنِ اصلی ( جہاں اس کی رہائش ہے) کی آبادی کی حدود میں داخل نہیں ہوجاتا، اس وقت تک قصر نماز ہی ادا کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح معانی الآثار: (رقم الحدیث: 2398، 416/1، ط: عالم الکتب)
وحدثنا فهد ، قال: ثنا أبو نعيم ، قال: ثنا إسرائيل , عن أبي إسحاق ، عن سعيد بن شفي ، قال: جعل الناس يسألون ابن عباس رضي الله عنهما عن الصلاة. فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج من أهله ، لم يصل إلا ركعتين ، حتى يرجع إليهم.
المبسوط للسرخسي: (236/1، ط: دار المعرفة)
"فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافراً؛ لاقتران النية بعمل السفر".
بدائع الصنائع: (93/1، ط: دار الکتب العلمیة)
"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافراً: فالذي يصير المقيم به مسافراً نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: ... والثالث: الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد نية السفر ما لم يخرج من عمران المصر".
الهندیة: (139/1- 141، ط: دار الفکر)
ویکفي ذلک القصد غلبة الظن یعني إذا غلب علی ظنه أنه یسافر قصر ولا یشترط فیه التیقین ... والجندي إنما یکون تبعاً للأمیر إذا کان یرزق من الأمیر، أما إذا کانت أرزاقهم من أموال أنفسهم فالعبرة لنیتهم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی