سوال:
مفتی صاحب! اگر حالت حمل میں خون آنا شروع ہو جائے تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: حالتِ حمل میں ولادت سے پہلے جو خون آتا ہے، شرعی اصطلاح میں اسے “استحاضہ” کہا جاتا ہے، اس خون کے آنے کی وجہ سے عورت پر نماز معاف نہیں ہوگی، البتہ اس صورت میں اگر عورت کو مسلسل خون آرہا ہو تو ہر نماز کے وقت کے لیے نیا وضو کرے گی اور نماز کا وقت ختم ہونے تک اسی وضو سے اور نمازیں بھی پڑھ سکتی ہے، بشرطیکہ کوئی اور وضو توڑنے کا سبب پیش نہ آئے، جبکہ نماز کا وقت ختم ہوتے ہی اس کا وضو بھی ختم ہو جائے گا اور اگلی نماز کے وقت کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 306، 68/1، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أنها قالت: قالت فاطمة بنت أبي حبيش لرسول الله صلى الله عليه وسلم : يا رسول الله، إني لا أطهر أفأدع الصلاة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما ذلك عرق وليس بالحيضة، فإذا أقبلت الحيضة فاتركي الصلاة، فإذا ذهب قدرها، فاغسلي عنك الدم وصلي
بدائع الصنائع: (42/1، ط: دار الکتب العلمیة)
ودم الحامل ليس بحيض، وإن كان ممتدا عندنا وقال الشافعي: هو حيض في حق ترك الصوم، والصلاة، وحرمة القربان لا في حق أقراء العدة....
(ولنا) قول عائشة - رضي الله عنها - الحامل لا تحيض، ومثل هذا لا يعرف بالرأي فالظاهر أنها قالته سماعا من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولأن الحيض اسم للدم الخارج من الرحم، ودم الحامل لا يخرج من الرحم لأن الله تعالى أجرى العادة أن المرأة إذا حبلت ينسد فم الرحم، فلا يخرج منه شيء فلا يكون حيضا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی