سوال:
مفتی صاحب " ایک خدیجہ نامی عورت کو اس کےشوہر عظیم نے کہا کے تو میری طرف سے آزاد ہے" جس وقت عظیم نے لفظ آزاد کہا تھا، اس وقت خدیجہ حمل سے تھی اوراس کا حمل ایک سے ڈیڈھ ماہ کا تھا، اس وقت عظیم نے اس پر تشدد کیا تھا اور مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا تھا، عظیم نے جب خدیجہ کو لفظ آزاد کہا تھا، اس وقت ۵۔۸۔۲۰۲۰ تاریخ تھی اور جب حمل ضائع ہوا تھا، اس وقت ۲۸۔۸۔۲۰۲۰ تاریخ تھی، اب آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ عدت کب تک ہوگی اور کیسے کی جائے گی؟
جواب: واضح رہے کہ وضع حمل سے عدت ختم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ کی خلقت واضح ہوگئی ہو، یا کوئی عضو مثلاً ہاتھ، پیر وغیرہ بن گیا ہو، یا حمل میں جان پڑ گئی ہو، ڈیڑھ دو ماہ کے حمل میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا، اس لئے صورت مسئولہ میں عدت کے گزرنے کے لئے اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ عورت کی عدت تین حیض ہوگی، اور عدت (تین حیض) کے گزرنے کی صورت یہ ہوگی کہ حمل ضائع ہونے کے بعد اگر کم ازکم تین دن تک خون آیا ہو، اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (پندرہ دن کا دورانیہ) بھی گزر چکا ہو، تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا، اس کے بعد مزید دو حیض اور گزارنے ہوں گے، اور اگر تین دن سے کم خون آیا، تو یہ خون حیض کا شمار نہیں ہوگا، بلکہ استحاضہ ہوگا، اس صورت میں عدت کی تکمیل کے لئے مستقل تین حیض گزارنے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندیة: (91/1، ط: زکریا)
والسقط إن ظہر بعض خلقہ من إصبع أوظفر أوشعر ولد فتصیر بہ نفساء، ہکذا في التبیین ، و إن لم یظہر شيء من خلقہ فلا نفاس لہا، فإن أمکن جعل المرئي حیضا یجعل حیضا وإلا فہو استحاضۃ۔
الدر المختار: (302/1، ط: دار الفکر)
(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة
رد المحتار: (302/1، ط: دار الفکر)
نعم نقل بعضهم أنه اتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها كما صرح به جماعة....ولا ينافي ذلك ظهور الخلق قبل ذلك؛ لأن نفخ الروح إنما يكون بعد الخلق
البناية شرح الهداية: (689/1)
السقط الذي استبان بعض خلقه]م: (والسقط) ش: بالحركات الثلاث في السين م: (الذي استبان) ش: أي ظهر م: (بعض خلقه ولد)۔۔۔قوله والسقط وبعض خلقه كالإصبع والشعر والظفر م: (حتى تصير المرأة به) ش: أي بالسقط م: (نفساء وتصير الأمة أم ولد به وكذا العدة تنقضي به) ۔۔۔۔۔۔۔۔ ونقصان الخلقة لا يمنع ثبوت أحكام الولد كما لو ولدت ولداً ليس له بعض أطرافه، فإن لم يظهر شيء من خلقه فلا نفاس لأن هذه علقة أو مضغة فلم يكن الدم الذي عنه نفاساً، ولكن إن أمكن جعله المرئي من الحيض وسمي الدم حيضاً بأن تقدمه طهر تام جعل حيضها إن كان ثلاثة أيام وإلا فهو استحاضة
کذا فی فتاوی دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی 119-94/M=02/1441
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی