سوال:
مفتی صاحب ! ایک آدمی نے لڑائی کے دوران اپنی بیوی کو کہا کہ تم فارغ ہو، پھر یہ کہا کہ فارغ ہے نکل جا، فارغ ہے، جا سکتی ہے، اعلان کر کے جا یا خاموشی سے جا، نوٹس بھیج دینا، میں دستخط کر دونگا۔
بیوی نے جب یہ کہا کہ آپ نے طلاق دینی ہے تو دے کر بھیج دو، میں نوٹس کیوں بھیجوں؟ میں نے کب طلاق مانگی ہے؟ تو شوہر نے کہا کہ میں نے طلاق نہیں دینی، تو جا کر نوٹس بھیج دے۔
اور جب بیوی نے کہا کہ آپ نے مجھے فارغ کردیا ہے تو شوہر نے قسم کھائی کہ میری نیت نہیں تھی، اور وہ جھوٹی قسم بہت کھاتے ہیں۔
مفتی صاحب ! معلوم یہ کرنا ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہو گئی ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر اگر اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں یا مذاکرہ طلاق کی حالت میں "تو میری طرف سے فارغ ہے" کے الفاظ کہے، تو بغیر نیت کے بھی مذکورہ الفاظ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے، البتہ اگر غصہ یا مذاکرہ طلاق نہ ہو، تو مذکورہ الفاظ کے ذریعے طلاق کی نیت سے ہی طلاق واقع ہوگی، چونکہ صورت مسئولہ میں مذکورہ الفاظ کہتے ہوئے شوہر کی طرف سے غصہ اور مذاکرہ طلاق پایا گیا ہے، اس لیے ان الفاظ سے ایک طلاق بائن بغیر نیت کے واقع ہوگئی ہے۔
اس کے بعد شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہے، نیز چونکہ ایک طلاق بائن سے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس لیے دوسری اور تیسری مرتبہ کہے گئے الفاظ لغو اور بے کار گئے، اور ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
البتہ عدت میں یا عدت کے بعد طرفین کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، لیکن اس نکاح کے بعد شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا، لہذا آئندہ اس بارے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (374/1، ط: دار الفکر)
"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".
و فیها ایضاً: (348/1، ط: دار الفکر)
"(أما تفسيره) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق
(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي
(وأما شرطه) على الخصوص فشيئان (أحدهما) قيام القيد في المرأة نكاح أو عدة".
الھدایة: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی