سوال:
السلام علیکم، مولانا صاحب ! بیوی کے شکوے شکایت کے دوران شوہر سے جھگڑا ہوگیا، شوہر نے کہا "تو اپنی ماں کے گھر چلی جا، بچے میرے پاس رہیں گے" ان الفاظ سے تنبیہ کرنا مقصود تھا، یہ نیت تھی کہ ماں کے گھر پہ بغیر بچوں کے ایک ہفتہ، دس دن رہے گی، تو عقل آجائے گی، پھر بات بات پر جھگڑا نہیں کرے گی تو بیوی نے کہا کہ آپ مجھے چھوڑ دیں گے تو شوہر نے کہا تو "اپنی ماں کے گھر چلی جا" نیت تنبیہ کرنا تھی۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسا کہنے سے نکاح پر اثر تو نہیں پڑا؟
براہ کرم رہنمائی فرما دیں۔
جواب: اگر آپ نے واقعی یہ الفاظ "اپنی ماں کے گھر چلی جا" کہتے وقت طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، البتہ طلاق کا معاملہ بہت نازک ہے، اس لیے آئندہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (105/3، ط: دار الكتب العلمية)
وقوله: " قومي " واخرجي واذهبي يحتمل أي: افعلي ذلك لأنك قد طلقت.
والمرأة إذا طلقت من زوجها تقوم وتخرج من بيت زوجها وتذهب حيث تشاء، ويحتمل التقيد عن نفسه مع بقاء النكاح وقوله: " اغربي " عبارة عن البعد أي: تباعدي فيحتمل البعد من النكاح ويحتمل البعد من الفراش وغير ذلك، وقوله: انطلقي وانتقلي يحتمل الطلاق؛ لأنها تنطلق وتنتقل عن بيت زوجها إذا طلقت ويحتمل الانطلاق والانتقال إلى بيت أبويها للزيارة ونحو ذلك....وقوله الحقي بأهلك يحتمل الطلاق لأن المرأة تلحق بأهلها إذا صارت مطلقة، ويحتمل الطرد والإبعاد عن نفسه مع بقاء النكاح وإذا احتملت هذه الألفاظ الطلاق وغير الطلاق فقد استتر المراد منها عند السامع، فافتقرت إلى النية لتعيين المراد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی