سوال:
حضرت! میرے ماموں کے بیٹے نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر میں عیسائی ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا کہ میں امریکہ چلا جاتا اور وہاں اچھی جاب مجھے مل جاتی، لیکن اس خیال کے آنے کے فوراً بعد میں نے اپنے دماغ کو جھٹک دیا اور اپنی اس سوچ پر توبہ کرلی، اس کی اس سوچ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ انسان کے ذہن میں محض شیطانی وساوس آنے پر شرعی احکام مرتب نہیں ہوتے، جب تک کہ اس خیال پر عمل نہ کر لے یا زبان سے نہ بولے، لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کے ماموں کے بیٹے کے ذہن میں محض خیال آنے کی وجہ سے ان کے اسلام پر کوئی فرق نہیں آیا ہے، البتہ اس قسم کے شیطانی خیالات سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الوسوسة، الفصل الاول، 18/1)
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ : " إن الله تعالى تجاوز عن أمتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل به أو تتكلم۔ متفق علیہ۔
حاشیة المشکوۃ: (باب الوسوسة، 18/1)
وظاھر الحدیث ان العبد لایؤاخذ مالم یعمل وان ھم بمعصیۃ وعزم علیھا والیہ ذھب بعض العلماء أخذا بظاھر الحدیث والصواب الذی علیہ اکثر الفقھاء والمحدثین أنہ یؤاخذ علی العزم دون الھم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی