سوال:
مفتی صاحب! Wet tissues سے استنجاء کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ استنجاء ہر اس چیز سے کیا جاسکتا ہے جو نجاست کو زائل کردے، wet tissues چونکہ گیلے ہوتے ہیں اور اس سے جب استنجاء کیا جاتا ہے تو وہ نجاست کو جذب کرلیتا ہے، جب دوبارہ اسی مقام پر وہ ٹشو لگتا ہے تو نجاست دوبارہ اس جگہ لگ جاتی ہے، لہذا اگر اتنی کثیر مقدار میں اسے استعمال کیا جائے کہ یقین ہو جائے کہ نجاست زائل ہوگئی ہے تو استنجاء ہوجائیگا، بصورتِ دیگر ایک دو دفعہ استعمال کرنے میں نجاست لگے رہنے کا احتمال باقی رہتا ہے، اس لیے wet tissues سے استنجاء نہ کرنے ہی میں زیادہ احتیاط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (340/1، ط: دار الفکر)
وإذا كانت العلة في الأبيض كونه آلة للكتابة كما ذكرناه يؤخذ منها عدم الكراهة فيما لا يصلح لها إذا كان قالعا للنجاسة غير متقوم كما قدمناه
منہاج السنن شرح جامع السنن للترمذی: (باب کراہیۃ ما یستنجی بہ، 91/1)
قلت فالکاغذ المعد لذلک فی عصرنا لا یکرہ الاستنجاء بہ لانہ لا قیمۃ لہ بعد القطع وکذا لیس ہذا للکتابۃ فافہم، وفی شرح النقایۃ وقد ضبط بعض العلماء ضبطا جیدا فقالوا یجوز الاستنجاء بکل جامد طاہر منق قلاع للاثر غیر موذ لیس بذی حرمۃ ولا شرف ولایتعلق بہ حق الغیر۔
الھندیۃ: (48/1، ط: دار الفکر)
يجوز الاستنجاء بنحو حجر منق كالمدر والتراب والعود والخرقة والجلد وما أشبهها ولا فرق بين أن يكون الخارج معتادا أو غير معتاد في الصحيح حتى لو خرج من السبيلين دم أو قيح يطهر بالحجارة ونحوها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی