سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہم سرد علاقے میں رہتے ہیں، جہاں مکڑیوں کو باہر پھینکنا ہر دفعہ ممکن نہیں ہے، مکڑیاں کبھی زہریلی اور خطرناک بھی لگتی ہیں، گھر کے اندر ان کو نہیں ماریں تو ان کی افزائش ہوتی ہے اور وہ ہر جگہ گھس جاتی ہیں تو کیا کسی چیز یا اسپرے سے مکڑیوں کو مارنا صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مکڑی باعث تکلیف اور اذیت ہو تو ایسی صورت میں مکڑی کو مارنا جائز ہے، لیکن عموماً مکڑی موذی نہیں ہوتی، اس لئے اگر مکڑی سے کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو تو بلا ضرورت ان کو نہیں مارنا چاہیے، البتہ اگر مکڑی کے جالے ہوگئے ہوں تو اسے صاف کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
روح المعانی: (365/10، ط: دار الکتب العلمیة)
والظاهر أن المراد بالعنكبوت النوع الذي ينسج بيته في الهواء ويصيد به الذباب لا النوع الآخر الذي يحفر بيته في الأرض ويخرج في الليل كسائر الهوام، وهي على ما ذكره غير واحد من ذوات السموم فيسن قتلها لذلك، لا لما أخرج أبو داود في مراسيله عن يزيد بن مرثد من قوله صلّى الله عليه وسلّم: «العنكبوت شيطان مسخها الله تعالى فمن وجدها فليقتلها» فإنه كما ذكر الدميري ضعيف.
وقیل: لا یسن قتلہافقد أخرج الخطیب عن علیّ کرّم اللہ تعالی وجہہ قال: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم دخلت أنا وأبو بکر الغار فاجتمعت العنکبوت فنسجت بالباب فلا تقتلوہن ذکر ہذا الخبر الجلال السیوطی فی الدر المنثور،واللہ تعالی أعلم بصحتہ وکونہ مما یصلح للاحتجاج بہ، ونصوا علی طہارة بیتہا لعدم تحقق کون ما تنسج بہ من غذائہا المستحیل فی جوفہا مع أن الأصل فی الأشیاء الطہارة، وذکر الدمیری أن ذلک لا تخرجہ من جوفہا بل من خارج جلدہا، وفی ہذا بعد. وأنا لم أتحقق أمر ذلک ولم أعین کونہ من فمہا أو دبرہا أو خارج جلدہا لعدم الاعتناء بشأن ذلک لا لعدم إمکان الوقوف علی الحقیقة، وذکر أنہ یحسن إزالة بیتہا من البیوت لماأسند الثعلبی وابن عطیة وغیرہما عن علی کرّم اللہ تعالی وجہہ أنہ قال: طہروا بیوتکم من نسج العنکبوت فإن ترکہ فی البیوت یورث الفقر وہذا إن صح عن الإمام علی کرّم اللہ تعالی وجہہ فذاک، وإلا فحسن الإزالة لما فیہا من النظافة ولا شک بندبہا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی