سوال:
بیعت کرنے کے کیا معنی اور اہمیت ہے؟ کیا آج کے دور میں کسی بزرگ یا پیر صاحب کی بیعت کرنا بہتر ہے یا اپنے طور پر قرآن و حدیث کا علم حاصل کرتے رہنا مناسب ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بیعت شیخ (پیر) اور مرید کے درمیان ایک باہمی معاہدہ کا نام ہے، اس طور پر کہ شیخ اپنے مرید کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے گا، جبکہ مرید کی طرف سے یہ وعدہ ہوتا ہے کہ شیخ کی جو تعلیمات ہوں گی، وہ اس پر ضرور عمل کرے گا۔
بیعت شرعاً مسنون ہے، کیونکہ بیعت کرنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے متعدد روایات سے ثابت ہے، چنانچہ مختلف مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپﷺ سے ہجرت و جہاد، ارکانِ اسلام قائم کرنے، کفار سے جنگ میں ثابت قدمی، سنت کو اختیار کرنے، بدعت سے اجتناب، طاعات (نیک اعمال) کی پابندی، نیز فحاشی اور گناہوں کے کاموں سے رکنے پر پابندی کی بیعت کرنا ثابت ہے۔
اس باہمی معاہدہ کی وجہ سے شیخ اور مرید کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی قوی رہتا ہے، اس لیے بیعت سے تقوی کے حصول کے مقصد میں بہت برکت اور آسانی ہوجاتی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اصل فرض انسان کے اپنے اخلاق و اعمال کی اصلاح ہے، جبکہ بیعت مسنون اور اصلاحِ اخلاق کا مؤثر سبب وذریعہ ہے، اس لیے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس موضوع پر "تصوُّف کی حقیقت اور اس کا طریق کار" (مؤلفہ: حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی صاحبؒ) کا مطالعہ ان شاءاللہ مفید ثابت ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الفتح، الایة: 10)
إن الذین یبایعونک إنما یبایعون اللّٰہ ، ید اللّٰہ فوق أیدیہم ، فمن نکث فإنما ینکث علی نفسہ ، ومن أوفی بما عٰہد علیہ اللّٰہ فسیؤتیہ أجرًا عظیمًاo
و قوله تعالیٰ: (الفتح، الایة: 18)
لقد رضي اللّٰہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما في قلوبہم فأنزل السکینۃ علیہم وأثٰبہم فتحًا قریبًاo
صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 18، 11/1، ط: دار الشعب، القاھرۃ)
حدثنا أبو الیمان قال : أخبرنا شعیب عن الزہري قال : أخبرني أبو إدریس عائذ اللّٰہ بن عبد اللّٰہ أن عبادۃ بن الصامت رضي اللّٰہ عنہ وکان شہد بدرًا وہو أحد النقباء لیلۃ العقبۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال وحولہ عصابۃ من أصحابہ : ’’ بایعوني علی أن لا تشرکوا باللّٰہ شیئًا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادکم ولا تأتوا ببہتان تفترونہ بین أیدیکم وأرجلکم ولا تعصوا في معروف فمن وفی منکم فأجرہ علی اللّٰہ ، ومن أصاب من ذلک شیئًا فعوقب في الدنیا فہو کفارۃ لہ ، ومن أصاب من ذلک شیئًا ثم سترہ اللّٰہ فہو إلی اللّٰہ إن شاء عفا عنہ ، وإن شاء عاقبہ ، فبایعناہ علی ذلک ‘‘ ۔
الموسوعة الفقہیة: (أدلة مشروعیة البیعة، 275/9- 277)
الموسوعة الفقہیة: (274/9، بیعة، التعریف)
ہذا وقد استفاض عن رسول اللّٰہ ﷺ ’’ أن الناس کانوا یبایعونہ تارۃ علی الہجرۃ والجہاد ، وتارۃ علی إقامۃ أرکان الإسلام ، وتارۃ علی الثبات والقرار في معرکۃ الکفار ، وتارۃ علی التمسک بالسنۃ واجتناب البدعۃ والحرص علی الطاعات".
الموسوعة الفقہیة: (274/9، بیعة، التعریف)
"للبیعۃ في اللغۃ معان ، فتطلق علی المبایعۃ علی الطاعۃ .... وہو عبارۃ عن المعاقدۃ والمعاہدۃ ، کأن کلا منہما باع ما عندہ لصاحبہ ، وأعطاہ خالصۃ نفسہ وطاعتہ ودخیلۃ أمرہ .... والبیعۃ اصطلاحًا ، کما عرفہا ابنُ خَلْدُونٍ في مقدمتہ : العہد علی الطاعۃ ، کأن المبایع یعاہد أمیرَہ علی أن یسلم لہ النظر في أمر نفسہ وأمور المسلمین ، لا ینازعہ في شيء من ذلک ، ویطیعہ فیما یکلفہ بہ من الأمر علی المَنشَط والمَکرَہ ، وکانوا إذا بایعوا الأمیر وعقدوا عہدہ جعلوا أیدیہم في یدہ تأکیدًا للعہد".
المقاصد الشرعیۃ: (المطلب الثامن صلة المقاصد بالذرائع سدًا و فتحًا، ص: 46)
"ان الوسیلۃ أو الذریعۃ.... تکون واجبۃ إذا کان المقصد واجبًا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی