سوال:
قیامت کے دن جن تین آدمیوں کے خلاف اللہ سبحانہ و تعالی خود مدعی بنیں گے، ان میں ایک وہ شخص ہوگا، جو کسی کو مزدور و ملازم رکھ کر اس سے پورا پورا کام لے، مگر اجرت پوری نہ دے۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 2227)
اس حدیث سے کیا مراد ہے؟ ہم کسی کو ملازم رکھتے ہیں، کبھی کام زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کم تو کیا وہ بھی اس وعید میں آجائے گا؟
براہ کرم اس حدیث کی مکمل وضاحت فرمادیں۔
جواب: حدیث کی تشریح سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مزدور کی شرعا دو قسمیں ہیں:
1۔اجیر خاص:
وہ مزدور ہے، جو متعین وقت کے اندر محض اپنے آپ کو اس کام کے لیے سپرد کرنے سے ہی اجرت کا مستحق ہوجائے۔
2۔ اجیر مشترک:
وہ مزدور ہے، جو عمل کرنے سے اجرت کا مستحق ہوتا ہے، محض اپنے آپ کو سپرد کرنے سے اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔
مذکورہ بالا وضاحت کے بعد حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی آدمی کو کسی مخصوص وقت میں، مخصوص کام کے لیے مزدور رکھے اور اس سے وقت اور کام پورا لے، لیکن اس کی مزدوری وقت پر نہ دے، یا اضافی وقت اور کام لے اور اس کی مزدوری نہ دے یا اس کے کام کی مزدوری مروجہ مزدوری سے کم دے، ان تمام صورتوں میں مالک زیادتی کرنے والا شمار ہوگا، جس پر حدیث شریف میں وعید آئی ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کسی شخص کو ماہانہ تنخواہ پر مخصوص وقت کے لیے مزدور رکھتے ہیں، تو وہ "اجیر خاص" ہوتا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس وقت کے دوران مالک رواج کے مطابق جتنا چاہے کام لے سکتا ہے، جس میں کام کی نوعیت کے اعتبار سے کبھی کبھار کمی زیادتی ہوسکتی ہے اور وہ کمی زیادتی اس وعید میں داخل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الإتحافات السنية بالأحاديث القدسية للعلامة المناوی: (ص: 124، ط: دار ابن کثیر، بیروت)
رجل استأجر أجيرا، وعاملا بأجر مخصوص، وعمل كذلك، فاستوفى منه عمله، ولم يعطه أجره، وهذا يصدق بأن استخدمه، وأعطاه أقل مما يستحق، أو منعه أجره، ولم يعطه شيئا منه، وهذا أيضا من باب التعبد، والاستخدام بغير أجرة، ولأنه استوفى منفعته بغير عوض، فهو ظالم له، وقد ورد الترغيب بإعطاء الأجير أجره قبل أن يجف عرقه. رواه ابن ماجه، والطبراني وغيرهما.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی