resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "إذا شك أحدكم في الثنتين والواحدة...الحديث " اس حدیث کى تحقیق وتشریح (5420-No)

سوال: مفتی صاحب ! اس حدیث کی تصدیق اور اس سے متعلق رہنمائی فرمادیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب کوئی شخص شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک؟ تو ایک کو اختیار کرے، اور جب دو یا تین میں شک کرے تو دو کو اختیار کرے، اور جب تین یا چار میں شک کرے تو تین کو اختیار کرے، پھر باقی نماز پوری کرے، تاکہ وہم زیادتی میں ہو، کمی میں نہ ہو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث 1209)

جواب: سوال میں پوچھی گئی حديث كو امام ابن ماجہ رحمہ اللہ (م 273 ھ) نے اپنى مشہور کتاب "سنن ابن ماجہ" میں "محمد بن إسحاق ، عن مکحول ، عن کریب رحمہم اللہ "کى سند سے نقل فرمائى ہے اور اسى سند سے امام ترمذى رحمہ اللہ (م 279 ھ) نے اپنى مشہور کتاب "سنن الترمذی" میں بھى اس حدیث کو نقل فرمایا ہے اور اس حدیث کو "حسن صحیح" قرار دیا ہے۔ (1)
حدیث کا ترجمہ وتشریح درج ذیل ہے:
ترجمہ: سیدنا حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’جب تم میں سے کسی کو (نماز کے دوران) دو اور ایک (رکعت) کے درمیان شک ہو جائے، تو وہ ایک رکعت شمار کرے اور (اگر) دو اور تین کے درمیان شک ہو، تو دو رکعتیں شمار کر لے۔ اگر تین اور چار کے درمیان شک پڑ جائے، تو تین رکعتیں سمجھ لے۔ پھر باقی نماز پوری کر لے، حتی کہ شک زیادتی کے بارے میں رہ جائے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے‘‘۔(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 1209)
تشريح: اس حديث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئى شخص نماز پڑھتے ہوئے رکعات کى تعداد بھول جائے ،تو ایسى صورت میں اسے کیا کرنا چاہیے، اس بارے میں جو ہدایات دى گئى ہیں اس کى تفصیل فقہاء کرام کے بیان کے مطابق حسب ذیل ہے:
رکعات کی تعداد میں بھول جانے یا شک کی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ بھولنا پہلی مرتبہ ہوا ہے تو دوبارہ نئے سرے سے نماز پڑھے۔ اگر یہ شک (بھولنا) بار بار ہوتا ہے، تو پھر غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے، یعنی جتنی رکعتیں غالب گمان سے یاد ہوں، اسی قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے، اور اگر غالب گمان بھی کسی جانب نہ ہو، تو اس صورت میں کمی کی جانب کو اختیار کرے، مثلاً: ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو، تو تین رکعتیں شمار کرکے چوتھی رکعت پڑھے، اسی طرح دو یا ایک رکعت میں شک ہوجائے اور کسی طرف غالب گمان نہ ہو تو اس کو ایک شمارکرے اور بقیہ رکعتیں پڑھ کر نماز مکمل کرے اور آخر میں احتیاطاً سجدہ سہو بھی کرلے۔ (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) سنن ابن ماجة : (كتاب الصلاة/ باب ما جاء فيمن شك في صلاته فرجع إلى اليقين، 2/ 379، رقم الحديث (1209) ط: دار الجيل)
حدثنا أبو يوسف الرقي محمد بن أحمد الصيدلاني ، قال : حدثنا محمد بن سلمة ، عن محمد بن إسحاق ، عن مكحول ، عن كريب ، عن ابن عباس ، عن عبد الرحمن بن عوف ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : "إذا شك أحدكم في الثنتين والواحدة ، فليجعلها واحدة ، وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلها ثنتين ، وإذا شك في الثلاث والأربع فليجعلها ثلاثا ، ثم ليتم ما بقي من صلاته حتى يكون الوهم في الزيادة ، ثم يسجد سجدتين وهو جالس قبل أن يسلم.
والحديث أخرجه الترمذي في "سنن الترمذي " أبواب الصلاة/ باب فيمن يشك في الزيادة والنقصان، 1/ 513 رقم الحديث (398)، ط: دار الغرب الإسلامي)من طريق محمد بن إسحاق، عن مكحول، عن كريب، عن ابن عباس، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا سها أحدكم في صلاته فلم يدر واحدة صلى أو ثنتين فليبن على واحدة، فإن لم يدر ثنتين صلى أو ثلاثا فليبن على ثنتين، فإن لم يدر ثلاثا صلى أو أربعا فليبن على ثلاث، وليسجد سجدتين قبل أن يسلم". وقال: هذا حديث حسن صحيح.

(2) الفتاوى الھندیۃ: (130/1، ط: دار الفکر)
"من شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وكان ذلك أول ما عرض له استأنف الصلاة، كذا في السراج الوهاج ثم الاستقبال لا يتصور إلا بالخروج عن الأول وذلك بالسلام أو الكلام أو عمل آخر مما ينافي الصلاة، والسلام قاعدا أولى ومجرد النية يلغو ولا يخرج من الصلاة، كذا في التبيين.
ثم اختلف المشايخ في معنى قوله أول ما عرض له قال بعضهم: إن السهو ليس بعادة له لا أنه لم يسه في عمره قط وقال بعضهم: معناه أنه أول سهو وقع له في تلك الصلاة والأول أشبه، كذا في المحيط، وإن كثر شكه تحرى وأخذ بأكبر رأيه، كذا في التبيين.
وإن لم يترجح عنده شيء بعد الطلب فإنه يبني على الأقل فيجعلها واحدة فيما لو شك أنها ثانية وثانية لو شك أنها ثالثة وثالثة لو شك أنها رابعة وعند البناء على الأقل يقعد في كل موضع يتوهم أنه محل قعود فرضا كان القعود أو واجبا كي لا يصير تاركا فرض القعدة أو واجبها۔۔۔۔۔۔۔۔وإذا شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وتفكر في ذلك كثيرا ثم استيقن أنه صلى ثلاث ركعات فإن لم يكن تفكره شغل عن أداء ركن بأن يصلي ويتفكر فليس عليه سجود السهو وإن طال تفكره حتى شغله عن ركعة أو سجدة أو يكون في ركوع أو سجود فيطول تفكره في ذلك وتغير عن حاله بالتفكر فعليه سجود السهو استحسانا، هكذا في المحيط".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

"إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالْوَاحِدَةِ...الحديث" ki tasdeeq / tasdieq جب تم میں سے کسی کو (نماز کے دوران) دو اور ایک (رکعت) کے درمیان شک ہو جائے۔۔۔الخ حدیث کی تصدیق , Confirmation of Hadith, Hadees, Narration regarding إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالْوَاحِدَةِ...

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees