سوال:
میری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں، میرے شوہر نے ابھی تک مہر ادا نہیں کیا ہے، ایک مرتبہ میں نے ان سے مہر کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہ کہا کہ زیورات کی صورت میں ادا ہوگیا ہے، جبکہ حق مہر 70000 ہے اور زیورات 20000 کے ہیں، اور نکاح کے وقت بھی یہ بات نہیں لکھوائی گئی تھی کہ مہر زیورات کی صورت میں ادا کیا جائے گا۔
براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں عورت کا حق مہر بوقت نکاح ستر ہزار سکہ رائج الوقت مقرر ہوا تھا، اور واضح رہے کہ مہر عورت کا شرعی حق ہوتا ہے، جو اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوگا، لہذا شوہر کے ذمہ واجب ہے کہ وہ مہر کی رقم ادا کرے۔
جہاں تک سونا دینے کا تعلق ہے، تو اس میں دیکھا جائے گا کہ اگر شوہر نے سونا دیتے وقت اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ سونا مہر کے طور پر ہوگا، یا اس برادری اور خاندان میں شادی کے وقت سونا بطور مہر دینے کا رواج ہے، تو ایسی صورت میں وہ سونا مہر کا حصہ ہوگا، اور مہر کی واجب الاداء ستر ہزار رقم سے اداشدہ سونے کی قیمت نکال کر باقی رقم کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہوگی، ہاں! اگر عورت مہر میں یہ سونا لینے پر بالکل راضی نہ ہو تو وہ ادا شدہ سونا واپس کرکے مہر میں ستر ہزار کی رقم کی ادائیگی کے مطالبے کا حق رکھتی ہے۔
لیکن اگر شوہر نے سونا دیتے وقت مہر ہونے کی صراحت نہیں کی تھی، اور نہ ہی اس برادری اور خاندان میں شادی کے وقت سونا بطور مہر دینے کا رواج ہو، تو ایسی صورت میں شوہر کے قول (سونا مہر کے بدلے میں دیا ہے) کا اعتبار نہ ہوگا، اور شوہر کے ذمہ ستر ہزار کی رقم کی ادائیگی لازم ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (274/2- 275- 282، ط: دار الکتب العلمیة)
(ولنا) قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24] أخبر سبحانه وتعالى أنه أحل ما وراء ذلك بشرط الابتغاء بالمال دل أنه لا جواز للنكاح بدون المال....
وكذا لها أن تحبس نفسها حتى يفرض لها المهر ويسلم إليها بعد الفرض، وذلك كله دليل الوجوب بنفس العقد....
إلا أنه إن كان مما يتعين بالتعيين ليس للزوج أن يحبس العين ويدفع غيرها من غير رضا المرأة؛ لأن المشار إليه قد تعين للعقد فتعلق حقها بالعين فوجب عليه تسليم عينه.
الھندیة: (الفصل السادس عشر فی جھاز البنت، 327/1، ط: رشیدیة)
"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی