سوال:
اگر ایک چیز کی نقد قیمت 100 روپے ہو، لیکن اگر وہی چیز 4 مہینے کے ادھار پر خریدی جائے تو اس کی قیمت 130 روپے متعین کی گئی ہو ، کیا ایسا سودا کرنا جائز ہوگا یا سود کے زمرے میں آئے گا ؟
جواب: واضح رہے کہ مذکورہ طریقہ پر ادھار معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ معاملہ طے کرتے وقت مقرر ہو جائے کہ معاملہ نقد ہے یا ادھار، مزید یہ کہ وقتِ مقررہ (چار ماہ) سے تاخیر ہو جانے کی صورت میں اضافی رقم وصول نہ کی جائے، اور وقتِ مقررہ (چار ماہ) سے پہلے ادائیگی کی صورت میں قیمت میں کمی نہ کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسی: (13/8)
’’وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل بکذا وبالنقد بکذا أو (قال:) إلی شهر بکذا وإلی شهرین بکذا فهو فاسد؛ لأنه لم یعامله علی ثمن معلوم ولنهي النبي ﷺ یوجب شرطین في بیع، وهذا هو تفسیر الشرطین في البیع، ومطلق النهي یوجب الفساد في العقد الشرعیة، وهذا إذا افترقا علی هذا ... فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرقا حتی قاطعه علی ثمن معلوم وأتما العقدَ فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ‘‘
بدائع الصنائع: (158/5)
’’وکذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسمائة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجهول ... فإذا علم ورضي به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه کان معلوماً عند العقد وإن لم یعلم به حتی إذا افترقا تقرر الفساد‘‘.
بحوث في قضایا فقہیة معاصرة: (ص: 7)
أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد۔
رد المحتار: (41/3، ط: سعید)
’’وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی