سوال:
مفتی صاحب ! قصر نماز کتنے فاصلے پر پڑھنی چاہیے؟
اگر ایک آدمی ملازمت پر جانے کے لیے روزانہ 100 کلو میٹر سے زیادہ سفر کرتا ہو، تو ملازمت کی جگہ قصر پڑھے گا یا مکمل پڑھنی ہوگی؟
جواب: اگر کوئی شخص ملازمت کے لئے روزانہ 48 اڑتالیس میل (77.24 تقریباً سوا ستتر کلو میٹر) کی مسافت یا اس سے زیادہ سفر کے ارادے سے نکلا ہو تو ایسا شخص اپنے شہر کی آبادی اور حدود ختم ہونے کے بعد یعنی اپنے شہر سے نکلتے ہی قصر نماز ادا کرے گا، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ شہر کی حدود سے نکلتے ہی قصر نماز ادا کریں گے، اگرچہ آپ روزانہ یہ سفر کرتے ہوں۔
اسی طرح سفر سے واپسی پر اپنے شہر کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے تک قصر نماز پڑھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف عبد الرزاق: (باب المسافر متی یقصر إذا خرج مسافرا، رقم الحدیث: 4323)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یقصر الصلاۃ حین یخرج من بیوت المدینۃ، و یصر إذا رجع، حتی یدخل بیوتہا۔
البحر الرائق: (باب صلاۃ المسافر، 138/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي) بيان للموضع الذي يبتدأ فيه القصر ولشرط القصر ومدته وحكمه أما الأول فهو مجاوزة بيوت المصر لما صح عنه - عليه السلام - «أنه قصر العصر بذي الحليفة» وعن علي أنه خرج من البصرة فصلى الظهر أربعا ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين والخص بالخاء المعجمة والصاد المهملة بيت من قصب كذا ضبطه في السراج الوهاج.
تنویر الابصار: (599/2)
من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا بالسیر الوسط مع الاستراحات المعتادة صلی الفرض الرباعی رکعتین لقول ابن عباسؓ: إن اللّٰہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً و المسافر رکعتین۔
حاشية الطحطاوي علی مراقی الفلاح: (ص: 425، ط: دار الکتب العلمیة)
ولا يزال" المسافر الذي استحكم سفره بمضي ثلاثة أيام مسافراً "يقصر حتى يدخل مصره۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی