عنوان: گاڑی میں نماز پڑھنے کا حکم (5581-No)

سوال: میں کمپنی کی گاڑی میں آفس آتا جاتا ہوں، چھٹی 05:30 بجے ہوتی ہے، راستے میں اتنا رش ہوتا ہے کہ عشاء کی اذان ہو جاتی ہے اور مغرب کی نماز قضاء ہو جاتی ہے، گاڑی والا راستے میں نماز کے لیے گاڑی نہیں روکتا اور اس روڈ پر دوسری گاڑی بھی نہیں جاتی ہے، ایسی صورت میں روزانہ نماز قضاء ہو جاتی ہے، براہ کرم کوئی حل بتادیں۔

جواب: کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ایسی سواری کا انتخاب کیا جائے جو نماز کے وقت تک ایسی جگہ پر پہنچ جائے، جہاں قبلہ رخ کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکے، روزانہ نماز قضا کرنے کا معمول بنانا درست نہیں ہے۔
تاہم اگر کبھی کبھار ایسا ہو جائے کہ گاڑی رکوانے کا مطالبہ کرنے کے باوجود ڈرائیور نماز کے لیے گاڑی نہ روکے اور منزل تک پہنچنے میں نماز کا وقت نکل جانے کا قوی اندیشہ ہو تو اگر قبلہ رخ کھڑے ہوکر کسی طرح نماز ادا کی جاسکتی ہو تو گاڑی میں ہی ادا کرلے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجبوراً سیٹ پر بیٹھ کر نماز پڑھ لے، اس کو "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار کرنا) کہتے ہیں، تاکہ نماز کے وقت کے اندر اس شخص کا شمار نماز پڑھنے والوں میں ہو جائے، مگر چونکہ بس یا وین وغیرہ میں نماز کے فرائض، یعنی قبلہ رخ، قیام، رکوع وسجدہ ادا کرنا اس صورت میں ادا نہیں ہوں گے، اس لیے بس سے اُترنے کے بعد فرض نمازکی قضا کرنا ضروری ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (باب صلوٰۃ المریض، 563/1)
"(والمربوطۃ بلجۃ البحر ان کان الریح یحرکہا شدیدا فکالسائرہ والافکالواقفۃ) ویلزم استقبال القبلۃ عند الافتتاح وکلما دارت".
"(قولہ والا فکالواقفۃ) ای ان لم تحرکہا الریح شدیدا بل یسیرا فحکمہا کاالواقفۃ فلا تجوز الصلاۃ فیہا قاعدا مع القدرۃ علی القیام کما فی الامداد(قولہ ویلزم استقبال القبلۃ) ای فی قولہم جمیعا بحر وان عجز عنہ یمسک عن الصلاۃ امداد عن مجمع الروایات ولعلہ یمسک مالم یخف خروج الوقت لما تقرر من ان قبلۃ العاجز جہۃ قدرتہ وہذا کذلک".

منہاج السنن شرح جامع السنن: (باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی الدابة حیث توجہت به، 234/2)
" واما الصلوٰۃ فی السفینۃ اذا کانت سائرۃ فجائزۃ بلا کراہۃ اذا لم یمکن الخروج الی الشط، ومع الکراہۃ اذا امکن الخروج الیہ نعم الصلوٰۃ قاعدا برکوع وسجود عند العجز عن القیام وعن الخروج الی الشط تجزیٰ بالاتفاق، وعند القدرۃ علی القیام وعلی الخروج الی الشط تجزیٔ عند ابی حنیفۃ مع الاساء ۃ وعند ابی یوسف ومحمد لا یجزیٔ ویلزم التوجہ الی الکعبۃ اتفاقا، وتمام الکلام فی البدائع، واما الصلوٰۃ فی السیارات البریۃ من القطارات وغیرہا فعند الوقوف حکمہا کحکم الصلوٰۃ علی الارض وعند السیر حکمہا کحکم الصلوٰہ فی السفینۃ السائرہ فمن صلی فیہا قاعداً برکوع وسجود اجزء ت، ومن صلی فیہا بالایماء للزحمۃ وضیق المحل فالظاہر من النظائر ان یعید الصلوٰۃ".

الدر المختار مع رد المحتار: (باب التیمم، 252/1، ط: سعید)
"یتشبہ بالمصلین وجوبا، فیرکع ویسجد إن وجد مکانا یابسا، وإلا یومئ قائما، ثم یعید".
الصحیح علی ہذا القول أنہ یومئ کیفما کان".

الھندیة: (کتاب الصلوٰۃ، 64/1)
"ومن أراد أن یصلي في سفینۃ تطوعًا أو فریضۃ فعلیہ أن یستقبل القبلۃ، ولا یجوز لہ أن یصلي حیث ما کان وجہہ".

البحر الرائق: (باب التیمم، 142/1، ط: رشیدیة)
"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2551 Nov 06, 2020
gaari mai namaz parhne ka hukum, Ruling / Order to pray / perform prayer in the car

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.