سوال:
آج کل کچھ لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ کھانے کی چیز کو حلیم کہنا اللہ تعالیٰ کے نام کی بےحرمتی ہے، کیا یہ واقعی بےحرمتی ہے؟
جواب: حلیم عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی تحمل اور برداشت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہےاور یہی لفظ حلیم اردو میں ایک خاص قسم کے کھانے کا نام ہے، ایک لفظ کے متعدد معنی ہوسکتے ہیں یا دو مختلف زبانوں کے الفاظ متحد الصوت یامتحد الصورت ہوسکتے ہیں، قرینہ سے جو معنی متعین ہوجائے، وہی معنی مراد ہوں گے، بسا اوقات دوسرے معنی کا تصور یا تخیل بے ادبی قرار پاتا ہے، پس آپ وہم میں نہ پڑیں، اردو زبان میں حلیم جس کھانے کو کہا جاتا ہے، اسے حلیم کہہ بھی سکتے ہیں اور حلیم کو کھا بھی سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 235)
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌo
تاج العروس: (526/31، ط: دار الھدایۃ)
(والحلم، بالكسر: الأناة والعقل) وقيل: ضبط النفس والطبع عن هيجان الغضب، (ج: أحلام وحلوم)۔۔۔۔۔(وهو حليم) كأمير، ومنه قوله تعالى: {إنك لأنت الحليم الرشيد} . قيل: إنهم قالوه على جهة الاستهزاء. (ج: حلماء وأحلام)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی