سوال:
آج کل کچھ لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ کھانے کی ایک خاص ڈش کو "حلیم" کہنا اللہ تعالیٰ کے نام کی بے حرمتی ہے، کیا یہ واقعی بے حرمتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بعض اوقات اتفاقی طور پر دو مختلف زبانوں میں ایک ہی شکل و صورت اور آواز کے الفاظ ہوتے ہیں، لیکن ان کا معنی ہر زبان کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، جیسے: لفظِ "سُلُوک" کہ عربی زبان میں اس کے معنی "کسی راستہ پر چلنے" کے آتے ہیں، جبکہ اُردو زبان میں اس کا معنی "طرز اور رویّہ" کے آتے ہیں۔ (فیروز اللغات)
اسی اصول کی روشنی میں لفظ "حلیم" کو بھی سمجھنا چاہیے کہ حلیم عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی بردبار اور متحمل مزاج کے آتے ہیں، جبکہ "الحلیم" اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے، البتہ اُردو زبان میں حلیم ایک قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے جو اناج، گوشت اور مسالے ڈال کر پکایا جاتا ہے۔ (فیروز اللغات، مادہ: ح-ل)
سابقہ تفصیل سے واضح ہوا کہ لفظِ حلیم کے عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں الگ الگ معانی ہیں، چنانچہ جب اُردو زبان میں کھانے کی ایک مخصوص ڈش کو حلیم بولا جاتا ہے تو اس وقت نہ ہی اس لفظ کا عربی معنی ملحوظ ہوتا ہے اور نہ ہی کہنے والے کا مقصد عربی معنی ہوتا ہے، لہذا کھانے کی ایک خاص قسم کو حلیم کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القاموس المحيط: (فصل الحاء، 1096/1، ط: مؤسسة الرسالة)
والحلم، بالكسر : الأناة، والعقل، ج: أحلام وحلوم، وﻣﻨﻪ: {أم تأمرهم أحلامهم بهذا} وهو حليم. ج: حلماء وأحلام.
فیروز اللغات: مادہ: ح-ل، ص: 608، ط: فیروز سنز
(ع- صف) (1) بردبار۔ متحمل مزاج۔ نرم۔ ملائم (2) (ار- ا- مذ) ایک قسم کا کھانا جو اناج، گوشت اور مسالے ڈال کر پکایا جاتا ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی