سوال:
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کا عقیقہ نہیں کرتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ ان کا عقیقہ نہیں ہوا ہے، اور اولاد کا عقیقہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا عقیقہ ہوا ہو، سوال یہ ہے کہ ان کی یہ بات کس حد تک درست ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں لوگوں کی مذکورہ بات درست نہیں ہے، لہذا اگر اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو، تب بھی اولاد کا عقیقہ کرنا درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اگر گنجائش ہو، تو اپنے لیے بھی عقیقہ کرلینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اعلاء السنن: (121/17، ط: ادارۃ القرآن)
عن الربيع بن صبيح عن الحسن البصري إذا لم يعق عنک، فعق عن نفسك وإن كنت رجلا.
فتح الباری: (595/9، ط: دار المعرفة)
فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن كان يريد أن يعق عنه لكن إن أراد أن يعق عن نفسه فعل. ونقل في نص الشافعي في البويطى: أنه لا يعق عن كبير .
تنقیح الفتاوی الحامدیة: (232/2، ط: امدادیة)
قال في السراج الوهاج في كتاب الأضحية مانصه: مسالة العقيقة تطوع إن شاء فعلها وإن شاء لم يفعل.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی