سوال:
مفتی صاحب ! مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک لیپ ٹاپ دوکاندار کو دیا کہ اس کو 14000 سے اوپر میں بیچ دو، جتنے کا بھی فروخت ہو، آپ 5 فیصد کے حساب سے نفع لے کر باقی رقم مجھے دے دینا، ایسا کرنا درست ہے؟ اگر درست نہیں ہے تو درست بات بتا دیں۔
مفتی صاحب ! ہمارا لیپ ٹاپ کا کاروبار تو نہیں ہے، اکثر ہمیں اس طرح کے مسائل پیش آتے ہیں رہنمائی فرما دیجئے گا۔
جواب: مذکورہ صورت میں دوکاندار آپ کی طرف سے لیپ ٹاپ بیچنے کا وکیل (Agent) ہے٬ اور اس عمل پر اجرت لینا جائز ہے٬ نیز فیصد کے اعتبار سے اجرت طے کرنے کا مذکورہ طریقہ کار بھی شرعا درست ہے٬ لہذا مذکورہ معاملہ جائز ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
درر الحکام شرح مجلة الاحکام: (الوکالة، الباب الثالث، المادة: 1467، 573/3، ط: دار الجیل)
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة"
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی