سوال:
ریئل اسٹیٹ کا کام کہ کسی کو مکان کرایہ پر دلوایا جائے، اور ایک مہینہ کا کرایہ اسٹیٹ والا لے، اسی طرح مکان بکوانے پر ایک فیصد کمیشن لینا جائز ہے؟ اسی طرح کسی نے کہا کہ میرا مکان بیس سے اوپر میں فروخت کروادو، بیس سے اوپر جتنے میں بھی گیا، وہ تمہارا ہوگا۔ کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟
جواب: 1)... کسی کو مکان کرایہ پر دلواکر یا مکان بکوا کر٬ اس کے عوض باہمی رضامندی سے طے شدہ کمیشن لینا٬ جائز ہے.
2)... مالک مکان کا ایجنٹ کو یہ کہنا کہ مجھے اس مکان کی قیمت مثلا: بیس لاکھ روپے چاہئے٬ اس کے اوپر جتنے میں مکان فروخت ہو٬ اوپر والی رقم آپ کی اجرت (کمیشن) ہوگی٬ اس کا معاملہ کرنا اصولی طور پر شرعا درست نہیں ہے٬ کیونکہ اس میں ایجنٹ کی اجرت (کمیشن) معلوم اور متعین نہیں ہے٬ لہذا یہ معاملہ شرعا فاسد ہے.
اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ ایک متعین رقم کمیشن کے طور پر طے کی جائے یا فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کیا جائے٬ جیساکہ اوپر والی صورتوں (مکان کرایہ پر دلوانے یا بکوانے) میں فیصد کے اعتبار سے کمیشن طے کیا گیا ہے.
البتہ اس طرح کمیشن طے کرنا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک درست ہے٬ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے٬ نیز آجکل اس کا عرف بھی ہوچکا ہے٬ اس لئے معاملات میں توسع کے پیش اگر اس طرح کا معاملہ ہوجائے٬ تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کو ناجائز نہیں کہا جائے گا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب الإجارة الفاسدۃ، 39/5)
"اجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکّاک وما لایقدّر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہٖ حاجۃ"
و فیه أیضًا: (مطلب فی أجرۃ الدلال، 53/5)
"وفی الحاوی سئل محمّدبن سلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال أرجو أنّہٗ لابأس بہٖ وان کان فی الأصل فاسدًا لکثرۃ التعامل"
عمدة القاري: (93/12، ط: دار احیاء التراث العلمی)
"وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك
هذا التعليق وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس نحوه.
وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به۔ هذا التعليق أيضا وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن يونس عن ابن سيرين، وفي (التلويح) : وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع، وممن كرهه: الثوري والكوفيون، وقال الشافعي ومالك: لا يجوز، فإن باع فله أجر مثله، وأجازه أحمد وإسحاق"
النتف في الفتاوى للسغدي: (575/2، ط: دار الفرقان)
"والْخَامِس اجارة السمسار لايجوز ذَلِك وَكَذَلِكَ لَو قَالَ بِعْ هَذَا الثَّوْب بِعشْرَة دَرَاهِم فَمَا زَاد فَهُوَ لَك وان فعل فَلهُ اجْرِ الْمثل"
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1593/32
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی