سوال:
مندرجہ ذیل احادیث کی تصدیق اور ان کا مفہوم بتادیں:(۱) نظر لا لگنا حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی تو وہ نظر ہوتی۔(صحیح مسلم 2188)
(۲) میری امت میں اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) اس کے فیصلے اور تقدیر کے بعد سب سے زیادہ تعداد نظر بد کے اثرات سے مرنے والوں کی ہوگی۔(السلسلۃ الصحیحۃ، 322/3)
(۳) نظر بد ایک اچھے بھلے انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں داخل کر دیتی ہے۔(السلسلۃ الصحیحۃ، 323/3)
جواب:
سوال میں دریافت کردہ روایات کا مفہوم اور اسنادی حیثیت بالترتیب ملاحظہ ہو:
(1)نظر لگنا حق ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:" نظر بد حق ہے،(یعنی نظر بد لگنا ایک حقیقت ہے)، اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی، تو وہ نظر ہی ہوتی، اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو"۔
مفہوم حدیث:
متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ نظر لگنا برحق ہے، جو کسی کو بھی کسی بھی وجہ سے لگ سکتی ہے، چنانچہ دنیا عالم الاسباب ہونے کے باوجود ہر کام میں تقدیر ِ الہی کی محتاج ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے کام میں جب تک تقدیرِ الہی شامل نہ ہو، وہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتا ہے۔ سو اسی تناظر میں نظر ِ بد کی تاثیر کو نمایاں کرنے اور لوگوں کے دلوں سے شکوک وشبہات دفع کرنے کی غرض سے مبالغہ کرتے ہوئے بطور تمثیل فرمایا کہ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر الہی پر سبقت کرکے ، ارادہ خداوندی پر غالب آجائے تو وہ نظر ہو سکتی تھی، لیکن اس قدر تاثیر کے باوجود وہ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے عاجز ہے۔(المنتقی شرح الموطأ، 258/7، الناشر: مطبعة السعادة)
نیز اسی حدیث میں نظر بد دور کرنے کے ایک طریقہ کی نشاندہی فرمائی ہے کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہوکہ اس کی نظر لگی ہے، اُسے وضو کرایا جائے اور اُس کے استعمال شدہ پانی کو کسی برتن میں جمع کرلیا جائے اور پھر جسے نظر لگی ہے اُس پانی سے اُس کو غسل کرا یا جائے۔
روایت کی اسنادی حیثیت:
مندرجہ بالا روایت کو متعدد محدثین عظام رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، اور روایت کے راویوں کو معتبر قرار دیاہے، لہذا روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔
2۔نظرِ بد سے زیادہ تر اموات:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے لوگوں کی زیادہ تر اموات کا سبب تقدیر الہی کے بعد نظر لگنا ہو گا۔
مفہوم حدیث:
سابقہ حدیث میں بھی یہ مضمون گزرا کہ ویسے تو تمام اموات ہی قضاء الٰہی سے ہوتی ہیں، تاہم عربوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ نظر ِبد مؤثر بالذات ہوتے ہوئے انسان کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے، سو مندرجہ بالا روایت میں اس عقیدہ پر ضرب لگائی گئی ہے کہ تمام چیزوں پر تقدیر ِ الہی کا فیصلہ غالب ہے ، باقی موت کے دیگر اسباب میں سے نظر ِبد ایک غالب سبب کی حیثیت رکھتا ہے۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر، حرف الهمزة، 200/1، الناشر: مكتبة الإمام الشافعي – الرياض)
روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ روایت کو حافظ زین الدین عراقی ودیگر حضرات رحمہم اللہ نے "حسن " قرار دیا ہے۔ لہذا روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔
(3)نظر ِ بد قبر میں اتاردیتی ہے:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:" نظر اتنی مؤثر ہوتی ہے کہ (اچھے بھلے) آدمی کو قبر میں اتار دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا میں پہنچا دیتی ہے"۔
مفہوم حدیث:
مندرجہ بالا روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نظرِ بد سبب کی حیثیت سے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے، اسی طرح نظرِ بد کی وجہ سے اونٹ شدید مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اونٹ کا مالک اس کو مرنے سے قبل ذبح کرنے کی کوشش کرتا ہے،اور پکنے کے لیے ہنڈیا میں ڈال دیتا ہے۔ (فيض القدير شرح الجامع الصغير، حرف العین، 397/4، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)
روایت کی اسنادی حیثیت:
ذکر کردہ روایت کو ابو نعیم اصبھانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "حلیۃ الأولیاء" میں ذکر کیا ہے۔ امام سیوطی ، عبدالرؤف مناوی اور حافظ سخاوی رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں مذکورہ روایت کو "ضعیف" قرار دیا ہے۔ تاہم دیگر روایات سے تائید ملنے کی وجہ سے روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقى، رقم الحدیث: 2188، 1719/4، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «العين حق، ولو كان شيء سابق القدر سبقته العين، وإذا استغسلتم فاغسلوا»
المنتقی شرح الموطأ، للقاضي أبو الولید الباجي الأندلسي: (باب ما جاء في أجر المریض، 258/7، ط: مطبعة السعادة)
وقوله - صلى الله عليه وسلم - لو سبق القدر شيء لسبقته العين يقتضي أنه لا يسبق القدر شيء وأنه مما قدره الله عز وجل إلا أن يكون على ما قدره الله تبارك وتعالى لكن لما كان تأثير العين تأثيرا متواليا بينا قال فيه - صلى الله عليه وسلم - هذا القول على معنى المبالغة فيه۔
السنة لابن أبي عاصم الشیباني: (136/1، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)
عن جابر بن عبدالله-رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكثر من يموت من أمتي بعد كتاب الله عز وجل وقضائه وقدره بالأنفس» ، يعني العين.
التيسير بشرح الجامع الصغير: حرف الهمزة، 200/1، ط: مكتبة الإمام الشافعي، الرياض)
وقوله ﷺ: "أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله وقدره بالعين"؛ لأن هذه الأمة فضلت على جميع الأمم باليقين، فحجبوا أنفسهم بالشهوات، فعوقبوا بآفة العين۔ وذكر القضاء والقدر مع أن كل كائن إنما هو بهما للرد على العرب الزاعمين أن العين تؤثر بذاتها۔
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء: (90/7، ط: السعادة، بجوار محافظة مصر)
عن جابر-رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «العين تدخل الرجل القبر , والجمل القدر»
فيض القدير شرح الجامع الصغير: (حرف العین، 397/4، ط: المكتبة التجارية الكبرى، مصر)
(العين تدخل الرجل القبر) أي تقتله فيدفن في القبر (وتدخل الجمل القدر) أي إذا أصابته مات أو أشرف على الموت فذبحه مالكه وطبخه في القدر يعني أن العين داء والداء يقتل فينبغي للعائن أن يبادر إلى ما يعجبه بالبركة ويكون ذلك رقية منه۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی