سوال:
میں پاکستان سے باہر ایک غیر مسلم ملک میں رہتا ہوں، یہاں لوگوں میں کتے پالنے کا عام رواج ہے، تقریباً ہر گھر میں ایک کتا تو ضرور ہوتا ہے، اور مسلمانوں کو بھی دیکھا ہے کہ انہوں نے بھی کتے پال رکھے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں کتا پالنے کی اجازت ہے؟
جواب: جاہلیت کے زمانے میں عربوں میں کتے پالنے کا رواج تھا، اور لوگ کتوں سے مانوس تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، تو آپ نے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے کتوں کے مارنے کا حکم فرمایا، لیکن یہ حکم وقتی تھا، جو بعد میں منسوخ ہوگیا، اس کے بعد صرف تین مقاصد کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتا پالنے کی اجازت دی، شکار کے لیے، کھیتی کی حفاظت کے لیے، اور ریوڑ کی پہرہ داری کے لئے (اگر مکان غیر محفوظ ہو، تو اس کی حفاظت کے لئے رکھنا بھی اسی حکم میں ہوگا) ، اس کے علاوہ کتا پالنا جائز نہیں ہے۔
حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر ہو یا کتا ہو"۔
اسی طرح دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہر روز ایک قیراط کم ہوگا"۔
لہذا مذکورہ تین مقاصد کے علاوہ کتا پالنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 4002، 82/5، ط: بیروت)
أن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: أخبرني أبو طلحة رضي الله عنه، صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان قد شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة»
سنن الترمذی: (باب ما جاء من أمسک کلبا، 132/3، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من اتخذ كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی