سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ہمارے ایک مقتدی نے کچھ عرصہ پہلے بینک سے تقریبا بیس لاکھ لون لیا، اور اس کی قسطیں بھی ادا کیں، قسطوں کے حساب سے قریبا پانچ لاکھ بقایا تھے کہ اس نے قسطیں جمع کرنی بند کردیں، پھر بینک نے اسے ڈیفالٹر قرار دے دیا تو جو ان کا انشورنس تھا، انشورنس والوں نے اس کی طرف سے بینک کا بقیہ پانچ لاکھ قرض ادا کردیا، تو اب یہ شخص یہ پوچھ رہا ہے کہ کیا اب بھی مجھ پر یہ لازم ہے کہ بینک کا بقایا قرض ادا کروں یا خاموش ہو جاؤں؟
جواب: سودی بینک اور انشورنس کمپنیوں کی اکثر اسکیمیں شرعی شرائط کے مطابق نہیں ہوتیں، اس لیے مسلمانوں کو ان کے ساتھ معاملات کرنے میں احتیاط برتنی چاہئے۔
کسی بھی ادراے یا شخص سے قرض لینے سے وہ رقم مقروض کی ملکیت میں آجاتی ہے، اور اس کا لوٹانا مقروض پر فرض ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اور آپ کی طرف سے ادا کردے تو وہ قرض ادا ہوجاتا ہے، اس لئے بینک کو مزید ادائیگی کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر انشورنس کمپنی نے آپ کی جمع کرائی گئی رقم سے زائد رقم بینک کو ادا کی ہے تو آپ کےلیے ضروری ہے کہ آپ اضافی رقم جمع کرا کر حساب برابر کردیں، تاکہ آپ سود وصول کرنے کے گناہ سے بچ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (161/5، ط: سعید)
و اعلم ان المقبوض بقرض فاسد کمقبوض ببیع فاسد۔
( قوله : کمقبوض ببیع الفاسد ) ای یفید الملک بالقبض لما علمت ، و فی جامع الفصولین : القرض الفاسد یفید الملک ، حتی لو استقرض بیتا ، فقبضہ ، ملک ، و کذا سائر الاعیان ، و تجب القیمہ علی المستقرض۔
و فیه ایضاً: (164/5، ط: سعید)
و یملک المستقرض القرض بنفس القبض عندھما ، ای عند الامام و محمد ، خلافا للثانی ، فلہ رد المثل ، و لو قائما۔
الھدایة: (185/3، ط: مکتبة رحمانیة)
کل عقد جاز ان یعقدہ الانسان بنفسہ ، جاز ان یوکل بہ غیرہ ، و یجوز الوکالہ بالخصومہ فی سائر الحقوق ، وکذا بایفائھا و استیفائھا ، الا فی الحدود و القصاص ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی