عنوان: سنتوں سے متعلق چند سوالات کے جوابات اور ایک غلط فہمی کا ازالہ(5828-No)

سوال: حضرت مفتی صاحب ! کیا سنتِ مٶکدہ کا ثبوت صحاحِ ستہ سے ملتا ہے؟
ایک شخص کا کہنا ہے کہ نمازکی فرض رکعات کا پڑھنا ہی ضروری ہے، اگرکوٸی سنت پڑھ لے تو بہتر ہے اور اگر کوٸی نہ پڑھے تو کوٸی گناہ نہیں۔
اپنی اس بات پر وہ مٶطا امام مالک سے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ کاعمل پیش کرتا ہے کہ وہ عشاء کی 4 رکعات فرض اور 1 رکعت وتر پڑھا کرتے تھے، نیز ان صحابی کا واقعہ بھی بطور دلیل پیش کرتا ہے کہ جنہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے کامیابی کے لیے کوٸی عمل بتائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے اھتمام کا فرمایا تو جواب میں صحابی نےکہا کہ واللہ میں اس میں کوٸی کمی زیادتی نہیں کروں گا۔
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ جس نےجنتی دیکھنا ہو، تو اسے دیکھ لے۔
اس شخص کا کہنا ہے کہ یہاں سنتوں کا کوٸی ذکرنہیں۔
مطلب اس کا دعوی یہ ہے کہ سنت کے پڑھنے پر ثواب تو ملتا ہے اور یہ ایک زاٸد چیز ہے، جبکہ نہ پڑھنے پر قرآن و حدیث میں کوٸی وعید یا سزا کا ذکر نہیں ہے۔
برائے مہربانی اس کے متعلق وضاحت فرمادیں۔
جزاك اللهُ‎

جواب: جواب سے قبل یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جتنی بھی شرعی اصطلاحات ہیں، مثلا: فرض، واجب، سنت (مؤکدہ وغیر مؤکدہ) اور مستحب وغیرہ، انہیں فقہائے امت نے متعین فرمایا ہے، اس سلسلے میں انہوں نے صرف ایک آیت قرآنی یا ایک حدیث مبارک کو سامنے نہیں رکھا، بلکہ سارے ذخیرہ علوم شریعت (قرآن، حدیث اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے عمل) کو سامنے رکھا، ان علوم کو سمجھا، ان علوم شریعت کا پوری گہرائی سے بار بار جائزہ لیا، تب جا کر کسی حکمِ شریعت کے لیے کوئی اصطلاح مثلاً: فرض، واجب اور سنت اور مستحب کا فیصلہ کیا گیا، لہذا ان احکام شریعت اور ان اصطلاحات کا جو درجہ مقرر ہے، اس سے ہٹ کر بلا تحقیق اپنی طرف سے کوئی دوسرا درجہ دینا، یا اس حکم کی اہمیت کو گھٹانا قطعا جائز نہیں ہے۔
لہذا قرآن کریم کی کسی ایک آیت، یا کسی ایک حدیث کا ترجمہ و تشریح پڑھ کر، کسی بھی حکم شرعی کے بارے میں اپنی طرف سے حتمی رائے قائم کرنا اور اس کا اظہار کرنا، احکام شریعت کے بارے میں بڑی جسارت ہے، ایسا طرز عمل علوم شریعت سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور وقت نکال کر کسی مستند عالم دین سے دین کا باقاعدہ علم حاصل کرنا اور سمجھنا چاہیے۔
صحیح اور مکمل علم حاصل ہونے کے بعد اندازہ ہوگا کہ احکام شریعت کے بارے میں بلا تحقیق حتمی رائے کرنا اتنا آسان نہیں، جتنا آسان سمجھ لیا گیا ہے۔
اب ہم سوال میں ذکر کردہ حدیث (جس سے سنتوں کے معمولی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے) کا جواب ذکر کرتے ہیں، اس کے بعد سنتوں سے متعلق احادیث اور ان کا حکم ذکر کریں گے۔
سوال میں ذکر کردہ حدیث مکمل سند ومتن کے ساتھ مندرجہ ذیل ہے:
١٠٧- وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ‏.‏ قَالَ: "تَعْبُدُ اللَّهَ لاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ‏".‏ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا أَبَدًا وَلاَأَنْقُصُ مِنْهُ.‏ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: ‏”‏مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا ‏”‏ ‏.‏
(كِتَاب الْإِيمَانِ/ باب بيان الإيمان الذي يدخل به الجنة وان من تمسك بما امر به دخل الجنة)
ترجمہ:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرما دیں، جس کے کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عمل یہ ہے کہ تم اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور فرض نماز ادا کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ وہ شخص کہنے لگا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں نہ اس عمل میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس سے کوئی چیز کم کروں گا، جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہو، تو وہ اس کو دیکھ لے۔

مذکورہ بالا حدیث کے دو جملوں کی تشریح:
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں گاہے بگاہے، دور دراز، شہر و دیہات سے لوگ آتے تھے اور اسلام سے متعلق سوالات کرتے تھے، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر شخص کو اس کے مناسب حال صورت کے مطابق جواب ارشاد فرمایا کرتے تھے، اس طرح کے کئی واقعات کتب صحاح میں ملتے ہیں، چنانچہ سوال میں ذکر کردہ واقعہ بھی دیہات سے آنے والے ایک صحابی(معجم طبرانی میں اس صحابی کا نام سعد بن أحزم بتایا گیا ہے) کا ہے، جیسا کہ حدیث کے ترجمہ میں موجود ہے، جب اس کو ارکان اسلام کے بارے میں آگاہی مل گئی، تو اس صحابی نے کہا: " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں نہ اس عمل میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس سے کوئی چیز کم کروں گا" اور پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کے جانے کے بعد فرمایا: " جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہو، تو وہ اس کو دیکھ لے"، اس جملے سے جو سنتوں کے معمولی ہونے کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے، وہ چند وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے، محدثین اور شارحین حدیث نے اس کے مختلف جوابات ذکر فرمائے ہیں، ذیل میں انہیں ذکر کیا جاتا ہے۔
پہلا جواب
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی (دیہات سے آئے ہوئے) صحابی کو اسلام کے بنیادی ارکان کی تعلیم فرمائی، یعنی کلمہ شہادت، فرض نماز، فرض زکٰوۃ اور فرض روزوں کی تعلیم فرمائی تھی، جبکہ سنن اور نوافل ان ارکان کی تکمیل اور ان میں رہ جنے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں، ان کا درجہ اسلام میں فرائض کا نہیں ہے، جس پر اس نے قسم کھا کر کہا کہ کہ اسلام کے جو ارکان آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھے تعلیم فرمائے ہیں، میں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا، یعنی آپ نے جس کو فرض قرار دیا ہے، اس کو فرض سمجھوں گا اس کی فرضیت کی شان میں کمی نہیں کروں گا اور جس کو فرض قرار نہیں دیا ہے، میں اس کو اپنی طرف سے فرض کا درجہ نہیں دوں گا۔
دوسرا جواب
اس صحابی کا یہ جواب اس کی کمال اطاعت و فرمانبرداری کا مظہر ہے، کہ جو آپ کا ارشاد ہے اس سے کسی قسم کا انحراف نہیں ہو گا، پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کا جنتی معلوم ہو گیا، تو آپ نے اس کے جنتی ہونے کی بشارت دی۔
تیسرا جواب
کچھ الفاظ محض جملے کی خوبصورتی کے لیے ہوتے ہیں، مثلا کوئی شخص سودا خریدتے ہوئے، بیچنے والے سے کہے کہ بھائی صاحب! قیمت میں کوئی کمی بیشی کرو، مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کی قیمت میں کمی بیشی کرو، "بیشی" یعنی قیمت میں اضافہ مقصود نہیں ہوتا، تو یہاں بیشی کا لفظ صرف کلام کی خوبصورتی کے لیے ہے، اسی طرح اس صحابی نے بھی کہا کہ میں اس میں کمی بیشی نہیں کروں گا، مطلب یہ تھا کہ ان فرائض کی انجام دہی میں کوئی کمی نہیں کروں گا، یہاں "بیشی" سے سنن و نوافل کی نفی مقصود نہیں ہے۔
چوتھا جواب
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ یہ صحابی ہی کی شان تھی کہ وہ یہ جملہ کہہ سکے، کہ وہ صرف فرض ادا کرے گا، کیونکہ صحابی اگر صرف فرض نماز آداب کے ساتھ ادا کر لے، تو ان کی نجات کے لیے کافی ہے اور جو بعض روایات میں آتا ہے کہ فرائض میں رہ جانے والی کمی کو سنن و نوافل کے ذریعہ پورا کیا جائے گا، یہ ہم جیسوں کے لیے ہے، جن کی عبادت ناقص ہے، ہماری عبادتوں اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی عبادتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہماری نمازیں اگر وہاں منہ پر مار کر نہ پھینکی جائیں، تو بھی بہت کافی ہے۔
(کذا فی تقریر بخاری شریف: ١/ ١٤٨)
لہذا اگر سوال میں مذکور استدلال کو درست مان لیا جائے، تو حج (جو کہ فرض ہے)، وتر (جو کہ واجب ہے)، صدقۃ الفطر (جو کہ واجب ہے) ان کا ثبوت کیسے ہوگا؟ جبکہ ان کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے، نیز نماز کے اندر کچھ باتیں فرض، کچھ باتیں، واجب اور کچھ مستحب ہوتی ہیں، تو کیا نماز کے اندر کی سنن ونوافل کے بارے میں بھی یہی استدلال ہوگا؟
تتمہ جوابات
نیز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے جانے کے بعد اس کے بارے میں، جو بشارت دی کہ "جس نے جنتی انسان دیکھنا ہو، تو اس کو دیکھ لے"، اس ارشاد کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ اپنے اس عزم پر قائم رہا، یعنی فرائض اسلام میں کوئی کوتاہی نہیں کی، تو یہ اس کے جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہوگا، بعض محدثین نے یہ بھی کہا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کے جنتی ہونے کا علم ہو گیا تھا، اس لیے آپ نے اس کے بارے میں جنت کی بشارت دی۔
واللہ اعلم بالصواب
(مزید تفصیل کے ملاحظہ فرمائیں شروح صحیح البخاری: کشف الباری، انعام الباری، تحفۃ القاری، فضل الباری، الکنز المتواری اور شرح صحیح مسلم: فتح الملہم، شرح النووی وغیرہ)

اب ہم ان احادیث میں سے چند کو ذکر کرتے ہیں جن سے سنتوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے، جو خود نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔
قیامت والے دن فرائض کی کمی نوافل اور سنن سے پوری کی جائے گی
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الجَهْضَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ المَدِينَةَ فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ أَنْ يَرْزُقَنِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَيُكَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ».
(سنن الترمذی: ج١/ ٤٣٧ (٤١٣)أبواب الصلاة عن رسول الله ﷺ/ باب ما جاء أن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة الصلاة)
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا کہ روزِ قیامت بندے اعمال کے سلسلہ میں سب سے پہلے سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا، پس اگر نماز ٹھیک رہی تو وہ فلاح و کامیابی سے ہم کنار ہوگا، اور اگر نماز ( کا معاملہ) خراب ہوا تو وہ خاسر و ناکام ہوگا، اور اگر اس کے فرائض میں کوتاہی پائی جائے گی تو اللہ عز و جل کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے نوافل ہیں، تو اس کے ذریعہ سے اس کے فرائض کی کمی پوری کردو ، پھر بقیہ اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فجر کی سنتوں کا اہتمام
حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ.
(صحیح البخاري: ٢/ ٥٧ (١١٦٩) كتاب التهجد/ باب تعاهد ركعتي الفجر ومن سمّاهما تطوعا)
ترجمہ:
حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلوں میں سے کسی بھی نماز کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے جتنا فجر سے پہلے دو رکعتوں کا اہتمام فرماتے تھے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ : "لا تدعوھما وان طردتکم الخیل".
(سنن ابی داؤد ج1 ص186 باب فی تخفیفھما،شرح معانی الآثار ج1 ص209 باب القراۃ فی رکعتی الفجر)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فجر کی دو سنتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔
ظہر کی سنتوں کی فضیلت
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ البَغْدَادِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ التِّنِّيسِيُّ الشَّامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي العَلَاءُ بْنُ الحَارِثِ، عَنِ القَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أُخْتِي أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا، حَرَّمَهُ اللهُ عَلَى النَّارِ».
(سنن الترمذي: ١/ ٤٥٢ (٤٢٨)أبواب الصلاة عن رسول الله ﷺ)
ترجمہ:
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی چار رکعتوں (سنت مؤکدہ) کی پابندی کرے گا، تو اللہ تعالی اس پر آگ کو حرام کر دیں گے۔
عصر کی نماز سے پہلے کی سنتوں کی فضیلت
حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ، قَالَ: نَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، قَالَ: نَا اليَمَانُ بْنُ المُغِيرَةِ العَبْدِيُّ، عَنْ عَبْدِ الكَرِيمِ أَبِي أُمَيَّةَ، أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، قَالَ: جِئْتُ وَرَسُولُ اللهِ ﷺ قَاعِدٌ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ ، فَأَدْرَكْتُ آخِرَ الحَدِيثِ، ورَسُولُ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ العَصْرِ لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ»، فَقُلْتُ بِيَدِي هَكَذَا - يُحَرِّكُ بِيَدِهِ -: إِنَّ هَذَا حَدِيثٌ جَيِّدٌ، فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: لَمَا فَاتَكَ مِنْ صَدْرِ الحَدِيثِ أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ، قُلْتُ: يَا ابْنَ الخَطَّابِ، فَهَاتِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنَّهُ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الجَنَّةَ».
المعجم الاوسط للطبرانی:٣/ ٨٨ (٢٥٨٠)، وقال: لا يُروَى هذا الحديث عن عبد الله بن عمرو، عن عمرَ إلا بهذا الإسناد، تفرد به حجّاجٌ.)
وأورده الهيثمي في «المجمع» ١/ ١٦٨ (٣٧) كتاب الإيمان/ باب فيمن شهد أن لا إله إلا الله، وقال: رواه الطبراني في الأوسط، وفيه حجاج بن نصر، والأكثرون على تضعيفه.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عصر سے پہلے کی چار رکعتیں پڑھے گا، تو اس کو (جہنم کی ) آگ نہیں چھوئے گی۔
دن رات کی سنتوں کی فضیلت
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي للهِ كُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا غَيْرَ فَرِيضَةٍ، إِلَّا بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ، أَوْ إِلَّا بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ»، قَالَتْ أَمُّ حَبِيبَةَ: فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ، وَقَالَ عَمْرٌو: مَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ، وَقَالَ النُّعْمَانُ مِثْلَ ذَلِكَ.
(الصحیح لمسلم: ١/ ٥٠٣ (٧٢٨)كتاب صلاة المسافرين وقصرها/ باب فضل السنن الراتبة قبل الفرائض وبعدهن وبيان عددهن.
ترجمہ:
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان شخص بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہر روز فرائض کے علاوہ بارہ رکعت پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے، یا فرمایا کہ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیا جائے گا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اس کے بعد سے میں مسلسل ان بارہ رکعات کو پڑھتی ہوں۔
من طريق روح بن عبادة، ثنا زرارة بن أبي الحلال العتكي، سمعت أنس بن مالك يقول: سمعت رسول الله ﷺ يقول: «مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً حَرَّمَ اللهُ لَحْمَهُ عَلَى النَّارِ»، فَمَا تَرَكْتُهُنَّ بَعْدُ.
(مسند أبی يعلى (المطالب): ٣/ ٥ (٥٨٣)كتاب النوافل/ باب النوافل المطلقة)

ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے دن میں بارہ رکعت (سنتیں) پڑھیں، تو اللہ تعالی اس کے گوشت کو آگ پر حرام کر دے گا۔
دن رات کی سنتوں کی تاکید
من طريق خالد بن يوسف السمتي، قال: نا أبي، عن أبي سفيان السعدي، قال: سمعت الحسن، عن أبي هريرة، قال: أَوْصَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ بِعَشْرِ رَكَعَاتٍ لَا أَدَعُهُنَّ: رَكْعَتَانِ قَبْلَ الغَدَاةِ، وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ العِشَاءِ،
(المعجم الأوسط للطبراني: ٤/ ٤١ (٣٥٦١)
وقال: لم يرو هذا الحديث عن أبي سفيان السعدي، إلا يوسف بن خالد، تفرد به ابنه عنه.
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ میں دس رکعت (سنت) کبھی نہ چھوڑوں، دو رکعتیں فجر سے پہلے دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں ظہر کے بعد اور دو رکعتیں مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد ۔
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مغرب اور فجر کی سنتوں کا اہتمام
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ جُرَيٍّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لَا يَدَعُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَالرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الفَجْرِ، فِي حَضَرٍ وَلَا سَفَرٍ.
(المصنف لابن أبي شيبة: ٣/ ٣١٥ (٣٩٥٢)كتاب الصلاة/ ركعتا الفجر تصليان في السفر، مرسلًا.
ترجمہ:
حضرت ابو جعفر سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مغرب کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں چھوڑیں نہ سفر میں اور نہ حضر میں ۔
سجدوں کی کثرت سے جنت میں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رفاقت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے
حَدَّثَنَا الحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنَا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الأَوْزَاعِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الأَسْلَمِيُّ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ، فَقَالَ لِي: «سَلْ» فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ: «أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ؟» قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ، قَالَ: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ».
(الصحیح لمسلم: ١/ ٣٥٣ (٤٨٩)كتاب الصلاة/ باب فضل السجود والحث عليه)
ترجمہ:
حضرت ربیعۃ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا اور آپ کے لیے وضو کا پانی اور آپ کی ضرورت کی اشیاء لاتا تھا تھا تو آپ نے فرمایا: مانگو، عرض کیا: میں آپ سے سے جنت میں آپ کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ نے فرمایا اور کوئی اس کے علاوہ خواہش تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ یہی خواہش ہے تو آپ نے فرمایا میری مدد کرو اپنے بارے میں زیادہ سجدوں کے ساتھ۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الأَوْزَاعِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ المُعَيْطِيُّ، حَدَّثَنِي مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ اليَعْمَرِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ أَعْمَلُهُ يُدْخِلُنِيَ اللهُ بِهِ الْجَنَّةَ، -أَوْ قَالَ- قُلْتُ: بِأَحَبِّ الأَعْمَالِ إِلَى اللهِ، فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: «عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ للهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ للهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَكَ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً».قَالَ مَعْدَانُ: ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَا قَالَ لِي ثَوْبَانُ.
(الصحیح لمسلم: ١/ ٣٥٣ (٤٨٨)كتاب الصلاة/ باب فضل السجود والحث عليه)
ترجمہ:
حضرت معدان بن ابی طلحہ ہاں کہتے ہیں میں حضرت ثوبان سے ملا میں ان سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں ہے اس کے ذریعے اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل کر دے یا میں نے کہا کوئی ایسا عمل بتائیں جو اللہ کو زیادہ پسند ہو تو وہ خاموش رہے میں نے دوبارہ ان سے پوچھا تو وہ خاموش رہے میں نے جب تیسری مرتبہ آپ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہاں میں نے یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی آپ نے مجھے فرمایا کیا کہ تم اپنے اوپر پر اللہ کے لیے سجدوں کی کثرت لازم کر دو بے شک جب تم اللہ تعالی کے سامنے ایک سجدہ کرتے ہو اللہ تعالی اس کے بدلے میں تمہارا ایک درجہ بلند کرتے ہیں اور تم سے تمہاری ایک خطا معاف فرماتا ہے۔
"جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے"
حَدَّثَنَا ابْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ العَتَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «الوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا».
(سنن أبی داود: ٢/ ٣٢٥ (١٤١٤)كتاب الصلاة/ باب فيمن لم يوتر)
والحديث سكت عنه أبو داود، وقال المنذري في «مختصره» ١/ ٤٣٧ (١٣٧٢): في إسناده عبيد الله بن عبد الله أبو المنيب العتكي المروزي، وقد وثَّقه ابن معين، وقال أبو حاتم الرازي: صالح الحديث، وتكلم فيه البخاري، والنسائي، وغيرهما.
ترجمہ:
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا یہ فرما رہے تھے وتر (پڑھنا) حق ہے، پس جس شخص نے وتر نہیں پڑھا وہ ہم میں سے نہیں ہے جس شخص نے وتر نہیں پڑھا وہ ہم میں سے نہیں ہے جس شخص وتر نہیں پڑھا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
بغیر عذر شرعی ترک جماعت پر رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سخت ناراضگی کا اظہار
626 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ ، فَيُحْطَبَ ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ ، فَيُؤَذَّنَ لَهَا ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ ، أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا ، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ ، لَشَهِدَ العِشَاءَ
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب وجوب صلاة الجماعة، 1/ 231، الرقم/ 626)
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میرے دل میں خیال آیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان کا حکم دوں، پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو بغیر کسی عذرِ شرعی کے نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے ہڈی والا گوشت یا دو عمدہ پائے ملیں گے تو وہ ضرور نمازِ عشاء میں شامل ہوتا۔
فائدہ:
نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا فقہاء کرام کے نزدیک سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے، لیکن آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے بارے میں (جو جماعت میں بلا عذر شریک نہیں ہوتے) کس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے، لہذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سنت کے ترک پر کوئی وعید نہیں ہے۔
ترک سنت پر لعنت
2154 - حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن أبي الموالي المزني، عن عبيد الله بن عبد الرحمن بن موهب، عن عمرة، عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ستة لعنتهم ولعنهم الله وكل نبي كان: الزائد في كتاب الله، والمكذب بقدر الله، والمتسلط بالجبروت ليعز بذلك من أذل الله، ويذل من أعز الله، والمستحل لحرم الله، والمستحل من عترتي ما حرم الله، والتارك لسنتي ".
(سنن الترمذی: 4/ 457)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھ لوگ ہیں جن پر میں، اللہ تعالی اور تمام انبیاء لعنت کرتے ہیں، ایک وہ جو اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے والا ہے، دوسرا وہ اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا ہے، تیسرا وہ جو لوگوں پر زبردستی مسلط ہونے والا ہو، تا کہ جس کو اللہ نے ذلیل کیا اس کو عزت دے اور جس کو اللہ نے عزت دی اس کو ذلیل کرے، چوتھا وہ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنے والا ہو، پانچواں وہ جو میں میرے آل اور کنبے کی حرمت کو پامال کرنے والا ہو اور چھٹا وہ جو میری سنت کو چھوڑنے والا ہو۔

حاصل بحث
مذکورہ بالا چند احادیث صرف ان لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ذکر کی گئی ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ دین کے احکامات صرف فرائض کی حد تک ہیں، باقی سنتیں پڑھنا کوئی ضروری نہیں ہے، بلکہ ان کو پڑھا جائے تو ثواب ملے گا نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے، اس سلسلے میں وہ سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
خوب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خیال بہت ہی ناسمجھی پر مبنی ہے، اگر سنتوں کا معاملہ اتنا ہی ہلکا ہوتا، جتنا کہ سمجھ لیا گیا ہے، تو پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان بے شمار احادیث کا کیا مطلب سمجھا جائے گا؟ جن میں سنت پر عمل کرنے کی بے انتہا تاکید آئی ہے اور ترک سنت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے؟ لہذا فقہائے امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو سامنے رکھ کر تجزیہ فرمایا اور امت کے لیے عمل کرنے میں سہولت کے لیے ان احکام شریعت کے درجات متعین فرمائے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ دین کے کس حکم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام کا عمل کس درجہ پابندی کا تھا، اس عمل کے ترک پر کوئی وعید اور ملامت ہے یا نہیں، اگر ہے تو کس درجے کی ہے؟
چنانچہ اس غور و خوض کے بعد انہوں نے کسی حکم کو فرض، واجب اور سنت قرار دیا ہے۔
اور فقہاء کرام ( فقہاء حنفیہ) نے مذکورہ بالا احادیث کے پیش نظر دن رات کی فرض نمازوں کے ساتھ کچھ سنتوں کو مؤکدہ قرار دیا ہے، جن کی تعداد بارہ ہے، بقیہ اشراق، چاشت، اوابین، تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو وغیرہ جیسی نمازوں کو سنت غیر مؤکدہ ( نفل) قرار دیا ہے۔
اسی طرح سنتوں سے متعلق ایک ضابطہ مقرر فرما کر
سنت کی دو قسمیں کر دیں:
لہذا سنت کی جو تعریف اور قسمیں فقہاء کرام نے ذکر فرمائی ہے وہ یہ ہے:
سنت کی تعریف
سنت وہ فعل ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام نے کیا ہو اور اس کی دو قسمیں ہیں:
١- سنت مؤکدہ
٢- سنت غیر مؤکدہ
(سنت غیر مؤکدہ کی تعریف وہ ہے، جس میں سنت مؤکدہ والی بات نہ ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے، تو اجرو ثواب ملے گا اور اگر بلاعذر اسے ترک کریں، تو اس پر گناہ وملامت نہیں ہوگی)۔
سنت مؤکدہ کی تعریف:
وہ فعل ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہمیشہ کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے ترک نہ کیا ہو۔
سنت مؤکدہ کا حکم:
عمل کے اعتبار سے واجب کی طرح ہے، یعنی بلاعذر سنت مؤکدہ کو چھوڑنے والا اور اس کے ترک کی عادت بنانے والا فاسق اور گنہگار ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے گا۔
اس تعریف سے یہ معلوم ہوا کہ عذر کی حالت میں سنت مؤکدہ کو ترک کرنا گناہ نہیں ہے۔
سنت مؤکدہ کو ترک کرنا کب گناہ ہے؟
سنت مؤکدہ کو کسی عذر کی بنا پر کبھی کبھار ترک کیا جا سکتا ہے، البتہ سنت مؤکدہ کو بلاعذر شرعی ترک کرنا اور ہمیشہ نہ ادا کرنے کی عادت بنا لینا یقینا گناہ اور موجب ملامت ہے۔
سوال میں جو کہا گیا ہے کہ سنتوں کو پڑھ لیں تو ثواب ہے، نہ پڑھیں تو کوئی نہیں ہے، یہ حکم سنن غیر مؤکدہ کے بارے میں ہے، لیکن جو سنن مؤکدہ ہیں (یعنی فرضوں سے پہلے اور بعد کی سنتیں جن تعداد بارہ ہے، بقیہ اشراق، چاشت، اوابین، تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو وغیرہ جیسی نمازوں کو سنت غیر مؤکدہ ( نفل) قرار دیا ہے، لہذا سنن مؤکدہ کو بلا عذر ترکت کرنا اور اس کی عادت بنا لینا یقیناً گناہ اور موجب ملامت ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ فرائض اور واجبات پر عمل کرنا یہ اللہ تعالی کے ساتھ ہمارے قانونی تعلق کا تقاضا ہے اور سنن و مستحبات پر عمل کرنا، حق تعالی کے ساتھ ہماری محبت کے تعلق کا تقاضہ ہے، اس تعلق میں اضافہ کرنے اور اس کو بتدریج بڑھانا مطلوب شرعی ہے، نیز جو شخص مستحبات میں سستی کرتا ہے، اس سے سنتوں کی توفیق چھن جاتی ہے اور جو سنتوں کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دے، اس سے فرائض کی ادائیگی میں بھی کوتاہی ہونے لگتی ہے اور جو شخص سنتوں کی توہین کرے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
اللہ تعالی ہم سب کو کامل اتباعِ سنت کی توفیق عطاء فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (124/1، ط: دار الفکر)
"فالأولى ما في التحرير أن ما واظب عليه مع ترك ما بلا عذر سنة، وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه".

البحر الرائق: (29/1)
"فالأولى ما عليه الأصوليون من عدم ( عدم ) الفرق بين المستحب والمندوب وأن ما واظب عليه مع ترك ما بلا عذر سنة وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه كذا في التحرير وحكمه الثواب على الفعل وعدم اللوام ( اللوم ) على الترك".

الدر المختار: (337/6، ط: دار الفکر)
"وفي الزيلعي في بحث حرمة الخيل: القريب من الحرام ما تعلق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار، بل العتاب كترك السنة المؤكدة، فإنه لا يتعلق به عقوبة النار، ولكن يتعلق به الحرمان عن شفاعة النبي المختار – صلى الله عليه وسلم – لحديث «من ترك سنتي لم ينل شفاعتي» فترك السنة المؤكدة قريب من الحرام، وليس بحرام اه.".

رد المحتار: (388/6، ط: دار الفکر)
"وما في الزيلعي موافق لما في التلويح حيث قال: معنى القرب إلى الحرمة أنه يتعلق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار؛ وترك السنة المؤكدة قريب من الحرمة يستحق حرمان الشفاعة اه. ومقتضاه أن ترك السنة المؤكدة مكروه تحريما لجعله قريبا من الحرام، والمراد سنن الهدى كالجماعة والأذان والإقامة فإن تاركها مضلل ملوم كما في التحرير والمراد الترك على وجه الإصرار بلا عذر".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 6243 Nov 24, 2020
sunato / sunnato se / sey mutaliq / motaliq chand sawalat / sawalaat ke / kay jawabat / jawabaat or aik ghalat fehmi ka azala, A few answers of questions about sunnah and a misunderstanding cleared up

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.