عنوان: ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک واقعہ (593-No)

سوال: مفتی صاحب! درج ذیل واقعہ کی تصدیق فرمادیں:
نڈر تھا، جرنیل تھا، تاجر تھا، گورنر تھا، پکڑ کر لایا گیا، مسجد نبویﷺ میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا، رسول اللہﷺ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ خوبصورت چہرہ، لمبا قد، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، ایک حسین جوان ہے، حکمرانی کے جتنے عیب ہیں، سارے پائے جاتے ہیں، سرکار دو عالمﷺ آگے بڑھے، فرمایا: ثمامہ! کیسے ہو؟ ثمامہ بولا: گرفتار کرکے پوچھتے ہو کیسا ہوں؟ رسول پاکﷺ نے فرمایا: کوئی تکلیف پہنچی ہو؟ کہتا ہے؟ نہ تمہاری تکلیف کی کوئی پرواہ، نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ، جو چی چاہے کرلو، رسول پاک ﷺ نے فرمایا: بڑا تیز مزاج آدمی ہے، اپنے صحابہ کو دیکھ کر پوچھا: اس کو دُکھ تو نہیں پہنچایا؟ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہﷺ! گرفتار ہی کیا ہے، دُکھ کوئی نہیں پہنچایا، آپ ﷺ نے فرمایا: ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو تو صحیح، ثمامہ کہتا ہے، کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہو جا نہیں دیکھتا، مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدلہ لیا جائے گا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی، تلوار کے میان پر ہاتھ تڑپنے لگا، اشارہ ابرو ہو، اس کی گردن ہو، حضرت محمد ﷺ کے قدم ہوں، یہ کیا سمجھتا ہے؟ لیکن رحمة للعالمین ﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، فرمایا: جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لو، لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو، ثمامہ نے کیا جواب دیا: اس نے مدینے والے کو دیکھا ہی نہیں تھا، اس نے کہا تمہارا چہرہ کیا دیکھوں، کائنات میں تجھ سے بد صورت کوئی نہیں ہے۔ (نعوذ باللہ) لوگو! یہ ہے وہ پیغمبر رحمة للعالمینﷺ جن کے نقش قدم پر ہم نے چلنا ہے، جب بے آسرا تھا، تب بھی گالیاں کھائیں، شکن نہیں ڈالی، آج تاجدار ہیں، اپنے گھر میں گالی سنتے ہیں، لیکن پیشانی پر شکن نہیں ڈالتے ہیں۔ فرمایا: کوئی بات نہیں، میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو، اس نے کہا: میں نے روم ویونان ایران ومصر کی بستیاں دیکھیں، مگر تمہاری بستی کائنات کی سب سے بد صورت بستی ہے۔ (نعوذ باللہ) اس بستی کو کیا دیکھوں؟ رحمة للعالمینﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، دوسرے دن آئے، پھر وہی جواب، تیسرے دن پاک پیغمبر ﷺ آئے، فرمایا: ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے، ذرا دیکھ تو لو، کہتا ہے: نہیں دیکھتا، اب ہمیشہ مسکرانے والے پاک پیغمبرﷺ نے مسکرا کر فرمایا: جاؤ! ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے، چلے جاؤ، ہم نے اسے رہا کر دیا ہے، ہم تجھے کچھ نہیں کہتے، جاؤ اور اپنے صحابہ کرام کو جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن کاٹنے کے لیے بے تاب تھیں، ان سے فرمایا: بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جاکر اس کو مدینہ سے رخصت کر دو، انہوں نے چھوڑا، پلٹے ہوئے اس کے دل میں خیال آیا، بڑے حکمران بھی دیکھے، محکوم بھی دیکھے، جرنیل بھی دیکھے، مگر اتنا حوصلہ والا تو کبھی نہ دیکھا، اس کے چہرے کو دیکھوں وہ کیسا ہے؟ بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا”پھر دیکھتا ہے، دیکھ کر سرپٹ بھاگا، دڑکی لگادی اور پھر! ثمامہ کہتے ہیں کہ قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے تو دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا، دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا، اس سے دُگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا، وہ ماہ تمامﷺ ننگی زمین پہ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، صحن مسجد پر آیا نبیﷺ نے نگاہ ڈالی، سامنے ثمامہ کھڑا ہے، فرمایا: ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا پھر آگئے؟ کہا، مجھ کو اپنا بناکر چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے اور کیا رہائی ہے، چھوڑا تب تھا جب آپﷺ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، اب آپﷺ کا چہرہ دیکھ لیا، اب زندگی بھر کے لیے آپ کا غلام بن گیا ہوں، سبحان اللہ (اللھم صل وسلم وبارک علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم)

جواب: سوال میں ذکر کردہ واقعے میں مضمون نگاری ولفاظی سے کام لیا گیا۔
ورنہ نفس واقعہ صحیح درج ذیل ہے۔
باب رَبْطِ الأَسِيرِ وَحَبْسِهِ وَجَوَازِ الْمَنِّ عَلَيْهِ:
باب: قیدی کو باندھنا اور بند کرنا اور اس کو مفت چھوڑ دینا جائزہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ:‏‏‏‏ " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ مِنَ الْغَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ كُلِّهَا إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى؟، ‏‏‏‏‏‏فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ "، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ قَائِلٌ:‏‏‏‏ أَصَبَوْتَ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِّي أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
(صحیح مسلم :103/2،ط،رحمانیہ ،کراچی)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ سواروں کو نجد  کی طرف بھیجا، وہ ایک شخص کو پکڑ لائے، جو بنی حنیفہ میں سے تھا اور اس کا نام ثمامہ بن اثال تھا، وہ سردار تھا یمامہ والوں کا، پھر لوگوں نے اس کو باندھ دیا مسجد کے ایک ستون سے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور فرمایا: ”اے ثمامہ ! تیرے پاس کیا ہے۔“ وہ بولا میرے پاس بہت کچھ ہے، اگر آپ مجھ کو مار ڈالیں گے تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خون والا ہے اور اگر آپ احسان کریں گے تو ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر گزاری کرے گا اور جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  روپیہ چاہتے ہیں تو مانگیے، جو آپ چاہیں گے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو رہنے دیا۔ پھر دوسرے دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا: ”کیا ہے تیرے پاس اے ثمامہ؟ اس نے کہا وہی جو میں آپ سے کہہ چکا  ہوں، اگر آپ احسان کریں گے تو احسان ماننے والے پر کریں گے، اگر مار ڈالو گے تو اچھی عزت والے کو مارڈالو گے، اگر روپیہ چاہتے ہیں تو جتنا مانگیں گے ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو رہنے  دیا۔ اسی طرح تیسرے دن پھر تشریف لائے اور پوچھا: ”تیرے پاس کیا ہے اے ثمامہ ؟اس نے کہا  وہی جو میں آپ سے کہہ چکا۔ احسان کرتے ہو تو کرو میں شکر گزار رہوں گا، مارتے ہو تو مارو، لیکن میرا خون جانے والا نہیں، مال چاہتے ہو تو جتنا مانگو دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”اچھا چھوڑ دو ثمامہ کو۔ وہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے درخت کی طرف گیا اور غسل کیا پھر مسجد میں آیا اور کہنے لگا  «‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قسم اللہ کی ! آپ سے زیادہ کسی کا منہ  میرے لیے برا نہ تھا اور اب آپ کے منہ مبارک سے زیادہ کسی کا منہ مجھے محبوب نہیں ہے، قسم اللہ کی ! آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین میرے نزدیک برا نہ تھا اور آپ کا دین اب سب دینوں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ قسم اللہ کی ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مجھے برا نہ معلوم ہوتا تھا، اب آپ کا شہر سب شہروں سے زیادہ مجھے پسند ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھ کو پکڑ لیا۔ میں عمرے کو جاتا تھا اب کیا کروں ؟ فرمایئے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو خوش کیا اور حکم کیا عمرہ کرنے  کا۔ جب وہ مکہ پہنچا تو لوگوں نے کہا: تو نے دین بدل ڈالا۔ اس نے کہا: نہیں، بلکہ میں مسلمان ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ۔ قسم اللہ  کی! یمامہ سے ایک دانہ گیہوں کا تم تک نہ پہنچے گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت نہ دے دیں۔
اس روایت کو بخاری نے بھی اختصار کے ساتھ نقل کیاہے۔
( صحیح بخاری: 627/2 ،ط ، قدیمی کتب خانہ، کراچی مشکوةشریف :357/2،۔ ط رحمانیہ کراچی )

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 8333 Jan 12, 2019
sammama bin assal (r.A) ka waqiya, incident of sammama bin assal (r.A)

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.