عنوان: ملازم کا اپنے دوکاندار کی چیزیں بیچ کر اس میں سے کچھ منافع اپنے پاس رکھنے کا حکم(5996-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا بھائی شال (Shawl) کی دوکان میں نوکری کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فیس بک پر اپنا پیج چلا رہا ہے، اس نے کچھ شال کی تصاویر لے کر فیس بک پر ڈال دی ہیں، جب وہ فیس بک پر آرڈر لے کر وہ شال ڈاک کے ذریعے بھیجتا ہے، تو کسٹمر اس کے اکاؤنٹ میں روپیہ بھیج دیتا ہے تو میرا بھائی شال کی قیمت دوکان کے مالک کے اکاؤنٹ میں بھیج کر زائد منافع اپنے پاس رکھ لیتا ہے، جبکہ دوکان کے مالک کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔ تو کیا یہ روپیہ (جو وہ اپنے اکاؤنٹ میں دوکان مالک کو بتاتے بغیر رکھتا ہے) حلال ہوگا یا نہیں؟

جواب: مذکورہ صورت میں آپ کا بھائی چونکہ دوکان میں ملازم ہے٬ اور وہ اپنے مالک (دوکاندار) کی ہی شالیں آگے فروخت کرتا ہے٬ اس لئے اس پر حاصل ہونے والا سارا نفع دوکاندار کا حق ہے٬ اس کی اجازت کے بغیر زائد نفع اپنے پاس رکھنا خیانت اور ناحق طریقے سے مال کھانا ہے٬ جو کہ شرعا جائز نہیں٬ اس سے بچنا لازم ہے.
البتہ اگر دکاندار خود اسے زائد نفع بطور کمیشن یا ہدیہ کے دینا چاہے٬ تو پھر لے سکتا ہے۔
نیز اس کی دوسری جائز صورت یہ ہے کہ وہ اپنے دوکاندار سے شال کی قیمت وغیرہ طے کرکے باقاعدہ اس سے خرید کر اپنے قبضہ میں لے لے٬ پھر اس میں اپنا نفع رکھ کر آگے اپنے گاہک کو بیچ سکتا ہے٬ بشرطیکہ یہ کام ملازمت کے اوقات میں نہ کیا جائے٬ اگر ملازمت کے اوقات میں کرنا ہو٬ تو اس کیلئے مالک کی اجازت ضروری ہوگی٬ اس کی اجازت کے بغیر ملازمت کے اوقات میں یہ کام کرنا شرعا درست نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 188)
وَلَا تَأْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ....الخ

مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، الفصل الثاني)
"عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ"

سنن الترمذي: (باب ما جاء في شفقة المسلم علی المسلم)
"عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلم أخو المسلم لا یخونہ ولا یکذبہ ولا یخذلہ، کل المسلم علی المسلم حرام عرضہ ومالہ ودمہ، ....."

الدر المختار مع رد المحتار: (مطلب لیس للاجیر الخاص أن یصلی النافلة، 70/6، ط: سعید)
(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 877 Dec 04, 2020
mulazim ka apnay dukan daar ki cheezain beech kar us mai say kuch munafa apnay pass rakhay ka hukum, Ruling / order for an employee to sell his shopkeeper's goods and retain some of the profits

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.