سوال:
مفتی صاحب ! کسی کے مکان کی قیمت 4 لاکھ ہو، مالک مکان کو 4 لاکھ کا کہہ کر کسی کو 5 لاکھ کا فروخت کردوں، اور مالک مکان کو 4 لاکھ دے کر بقیہ ایک لاکھ اپنے پاس رکھ لوں۔ کیا یہ میرے لیے حلال ہوگا؟
جواب: صورت مسؤلہ میں بروکر بائع (فروخت کرنے والے) کا وکیل ہے، اور وکیل اپنے موکل کی طرف سے مقرر کردہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے، جبکہ عقد میں نفع نقصان کا مالک مؤکل ہوتا ہے، لہٰذا بروکر صرف اپنی مقررہ اجرت کا مستحق ہوگا، اس کے علاوہ جس قدر نفع حاصل ہوا ہے، وہ سب مؤکل کی ملکیت شمار ہوگا، بروکر کے لئے اس نفع کا لینا خیانت اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے، لہذا بروکر کے لئے اس نفع کو لینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (الفصل الرابع في فساد الإجارۃ، 450/4، ط: زکریا)
"وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذٰلک حرام علیہم، کذا في الذخیرۃ".
المبسوط للسرخسی: (باب السمسار، 115/15، ط: دار الفکر)
خلاصة الفتاوی: (116/3، ط: لاھور)
الاشباہ و النظائر: (ص: 148، ط: اشاعة الاسلام، دھلی)
رد المحتار: (مطلب في أجرۃ الدلال، 63/6، ط: سعید)
"وفي الدلال والسمسار یجب أجرالمثل وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا، فذاک حرام علیہم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجوا أن لاباس بہ، وإن کان في الأصل فاسدا لکثرۃ التعامل وکثیرمن ھذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی