سوال:
مفتی صاحب ! میں ابھی تک اپنی بیوی کو دو مرتبہ طلاق دے چکا ہوں، میری بیوی لڑتی جھگڑتی رہتی ہے، گھر میں چوری بھی کرتی ہے، نا محڑم کے ساتھ باہر گھومتی بھی ہے اور بچوں کا خیال نہیں رکھتی، انہیں بہت مارتی ہے، بار بار طلاق کا مطالبہ کرتی رہتی ہے، میری 6 سا ل کی بیٹی اور 8 سال کا بیٹا ہے، وہ کہہ رہی ہے کہ مجھے طلاق اور دونوں بچے دو۔ تو کیا مفتی صاحب ایسی سفاک عورت کو بچے دینے کا پابند ہوں یا طلاق کے بعد بچے اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟
جواب: طلاق کی وجہ سے اگر میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے، تو ماں لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کسی ایسے آدمی سے جو بچوں کا غیر محرم ہو، شادی نہ کرلے، اور ماں کی اخلاقی حالت بھی خراب نہ ہو۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کی ذکر کردہ تمام باتیں درست ہیں، تو طلاق کے بعد ماں کو پرورش کا حق حاصل نہیں ہوگا، اور چونکہ لڑکا آٹھ سال کا ہے اور آٹھ سال کا ہونے کی صورت میں پرورش کا حق باپ کو ہوتا ہے، لہذا لڑکا تو شرعاً آپ کے ساتھ ہی رہے گا، اور لڑکی نو سال مکمل ہونے تک نانی کے پاس رہے گی، اگر وہ پرورش کے قابل نہ ہوں ، تو دادی کے پاس رہے گی، ورنہ خالہ پھر پھوپھی کے پاس رہے گی، اور اگر ان میں سے کوئی عورت نہ ہو یا وہ پرورش کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوں تو لڑکی بھی آپ کے پاس ہی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (215/5- 216، ط: دار احیاء التراث العربي)
والحاضنُ أماً أو غیرہ أحق بہ أي: بالغلام، حتی یستغني عن النساء، وقدر بسبع وبہ یفتی؛ لأنہ الغالب۔۔۔۔۔ والأم والجدة۔۔ أحق بھا، أي: الصغیرة حتی تحیض۔۔۔۔۔۔ وغیرہما أحق بھا حتی تشتھي و قدر بتسع، و بہ یفتی۔۔۔۔ الخ۔
الھندیة: (571/1)
الباب السادس عشر في الحضانة أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی