سوال:
مولانا صاحب ! یہ حدیث پاک فضائل اعمال میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے کہ اے آدم کی اولاد تو دن کے شروع میں چار رکعتوں سے عاجز نہ بن، میں تمام دن تیرے کاموں کی کفایت کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ حدیث کون سی کتاب اور کون سے باب میں ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ چار رکعتوں سے کون سی نماز مراد ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ حدیث ’’صحیح‘‘ہے ،حدیث شریف میں چار رکعات سے مراد ’’چاشت کی نماز ‘‘ہے اوریہ حدیث ’’سنن أبی داؤد‘‘ ’’ باب صلاة الضحى‘‘ میں موجود ہے اور اسی طرح امام احمد (م 241ھ)نے ’’مسند احمد‘‘ میں ذکر کیاہے اور الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ امام ترمذی(م279ھ) نے ’’سنن ترمذی ‘‘’’باب ماجاء فی صلاة الضحی‘‘میں ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کا ترجمہ ،تخریج ،اسنادی حیثیت اور تشریح مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:
حضرت نعیم بن ھمَّار سے روایت ہے کہ میں رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم !دن کے آغاز پر چار رکعتیں قضا مت کر، میں تیرے لیے دن کے اختتام تک کافی ہوں گا۔
تخریج الحدیث:
۱۔امام أبو داؤد(م275 ھ)نے ’’سنن أبی داؤد ‘‘ (2/462)، رقم الحدیث: 1289،ط: دار الرسالة العالمية) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔ امام أحمد(م 241ھ)نے ’’مسندأحمد‘‘(37/137)،رقم الحدیث: 22469،22470، ط: مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔ امام دارمی (م255 ھ)نے’’سنن الدارمی‘‘(2/909)،رقم الحدیث: 1492،ط:دارالمغنی ) میں ذکر کیا ہے۔
۴۔ امام نسائی (م303 ھ)نے’’السنن الکبری‘‘(1/260)،رقم الحدیث: 466،467، ط: مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔ امام ابن حبان (م 354ھ)نے’’صحیح ابن حبان‘‘(6/275)،رقم الحدیث: 2534،ط: مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۶۔ امام طبرانی (م360 ھ)نے ’’مسند الشامیین ‘‘(1/172)،رقم الحدیث: 293،294،ط: مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
7۔ امام بیہقی(م 458ھ)نے ’’السنن الکبری‘‘(3 /68)،رقم الحدیث: 4901،ط:دارالکتب العلمیة) میں ذکر کیا ہے۔
ان كتب میں یہ روایت حضرت نعیم بن ہمار غطفانی سے ہے اور اس کے علاوہ أبودراء ،أبوذر ، عقبہ بن عامر اور أبوامامہ سے بھی مروی ہے،جس سے اس روایت کو مزید تقویت ملتی ہے۔
تشریح:
روایت میں چار رکعات سے کیا مراد ہے؟
اس بارے میں محدثین کرام کے مختلف اقوال ہیں، اکثر محدثین کرام کے نزدیک ان چار رکعات سے مراد چاشت کی نماز ہے اور بعض حضرات کے نزدیک ان چار رکعات سے مراد فجر کی سنتیں اور فرض مراد ہیں، کیونکہ شرعی طور پر دن کی ابتدا صبح سے ہی ہوتی ہے۔
امام ترمذی(م279 ھ) اور ابو داود(م275 ھ) رحمہما اللہ نے ان چار رکعتوں سے مراد چاشت کی نماز ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو باب صلاة الضحى (نمازِ چاشت کے باب) میں ذکر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 1289، 462/2، ط: دار الرسالة العالمية)
عن نعيم بن همار، قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "يقول الله عز وجل: يا ابن آدم لا تعجزني من أربع ركعات في أول نهارك أكفك آخره"
هذا الحديث أخرجه أحمد في ’’مسنده‘‘(37/137)( 22469)(22470) والدارمي في ’’سننه‘‘(2/909)( 1492) والنسائي في ’’سننه الكبير‘‘(1/260)( 466)(467)وابن حبان في ’’صحيحه ‘‘(6/275)( 2534)والطبراني في’’مسندالشاميين‘‘(1/172)(293)(294)و البيهقي في ’’سننه الكبير‘‘(3 /68)( 4901)
وله شاهد من حديث أبي الدرداء وأبي ذر عند الترمذي(2/340)( 475) بسند حسن وهو في "مسند أحمد" (27480) و (27550)وآخر من حديث عقبة بن عامر عند أحمد (17390).
المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود: (192/7، ط: مطبعة الاستقامة، القاھرة)
مناسبة الحديث للترجمة أن المراد بهذه الأربع صلاة الضحى كما مال إليه المصنف والترمذي ولذا ذكرًا الحديث في باب صلاة الضحى وهو الظاهر من الحديث وعليه عمل الناس وقيل إن المراد بها ركعتا الفجر وفرض الصبح لأنها هي التي في أول النهار حقيقة ويكون معناه كحديث من صلى الفجر فهو في ذمة الله وحسابه على الله رواه الطبراني عن والد أبي مالك الأشجعي بإسناد حسن.
کذا في عون المعبود شرح سنن أبي داود: (4/118)، ط: دار الكتب العلمية) و في فتح الودود في شرح سنن أبي داود: (2/52)،ط: مكتبة أضواء المنار)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی