سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں گالف کھلواتا ہوں، دو صاحب آپس میں شرط لگاتے ہیں، میرا صاحب جب شرط جیتتا ہے، وہ مجھے وہی سارے پیسے دیتا ہے۔ کیا میرے لئے یہ پیسہ جائز ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں آمدنی جوا کھیل کر حاصل کی جارہی ہے، اور جوئے سے حاصل شدہ آمدنی شرعاًحرام ہے، لہذا آپ کے لئے مذکورہ رقم لینا ناجائز اور حرام ہے، اور اس رقم کو اصل مالک کے حوالے کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدہ: الآیة: 90- 91)
یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضآءَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ، فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ o
روح المعانی: (694/2، ط: رشیدیة)
وفی حکم ذلک جمیع انواع القمار من النرد والشطرنج وغیرھما حتی ادخلوا فیہ لعب الصبیان بالجوز والکعاب والقرؑۃ فی غیر القسمۃ و جمیع انواع المخاطرۃ والرھان وعن ابن سیرین کل شئی فیہ خطر فھو من المیسر۔
الفقہ البیوع: (1052/2)
والمال المغصوب وما في حکمہ مثل ما قبضہ الإنسان رشوة أو سرقة أو بعقد باطل شرعاً لا یحل لہ الانتفاع بہ، ولا بیعہ ولا ھبتہ، ولا یجوز لأحد یعلم ذلک أن یأخذہ منہ شراء أو ھبة أو إرثاً، ویجب علیہ أن یردہ إلی مالکہ فإن تعذر ذلک وجب علیہ أن یتصدق بہ عنہ الخ
تفسیر فتح القدیر للشوکانی: (336/1)
المیسر میسران میسر اللھو امیسر القمار فمن میسر اللھو النرد، والشطرنج، والملاھی کلھا، ومیسر القمار ما یتخاطر الناس علیہ، ای فیہ مخاطرۃ الربح والخسارۃ بانواع من الالعاب وا لشروط ککل انواع القمار الموجودۃ ولتی یمکن ان توجد
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی