resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: دھوکہ دہی سے قرض معاف کروانے کا حکم(6148-No)

سوال: مفتی صاحب ! السلام علیکم، اگر کسی کے میری طرف پیسے رہ گئے ہوں، مجھے تو یاد ہوں، لیکن وہ شخص بھول جائے اور پھر ميں اسکو کہوں کہ جانے انجانے میں اگر میری طرف آپ کا کچھ حساب باقی رہ گیا ہو تو مجھے معاف کردیں تو کیا اس طرح معاف ہوجائے گا؟

جواب: قرض دار کی ذمہ داری کہ وہ قرض لے کر اسے واپس ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرے، اور دھوکہ دہی اور ٹال مٹول سے گریز کرے، اس کے متعلق احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

(1) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے، اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔ ( صحیح البخاری)

(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر کوئی شخص اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ وہ اس کو بعد میں ادا نہیں کرے گا، تو وہ چور کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
( سنن ابن ماجہ)
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ( صحیح بخاری و مسلم)
(4) رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ سن لو ! ظلم نہ کرو ، کسی مسلمان کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
لہذا مذکورہ طریقے پر قرض معاف کروانا حقیقتاً قرضدار کے ساتھ دھوکہ دہی ہے، خاص طور پر جبکہ وہ بھول چکا ہے اور آپ کو یاد ہے کہ آپ نے قرض ادا کرنا ہے، اس لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (کتاب الاستقراض: رقم الحدیث: 2400)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ.

صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 2387)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أخذ أموال الناس يريد أداءها أدى الله عنه، ومن أخذ يريد إتلافها أتلفه الله»

سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 2410)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيِّ بْنِ صُهَيْبِ الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ زِيَادِ بْنِ صَيْفِيِّ بْنِ صُهَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعَيْبِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا صُهَيْبُ الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا رَجُلٍ يَدِينُ دَيْنًا وَهُوَ مُجْمِعٌ أَنْ لَا يُوَفِّيَهُ إِيَّاهُ لَقِيَ اللَّهَ سَارِقًا .

مشکاۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریۃ، الفصل الثاني، رقم الحدیث: 2946)
"عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ"

سنن الترمذي: (أبواب البر و الصلۃ، باب ما جاء في شفقۃ المسلم علی المسلم)
"عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلم أخو المسلم لا یخونہ ولا یکذبہ ولا یخذلہ، کل المسلم علی المسلم حرام عرضہ ومالہ ودمہ، ....."

مرقاۃ المفاتیح: (107/6، ط: بیروت)
مطل الغني أي تاخیرہ أداء الدین من وقت إلی وقت، فإن المطل منع أداء ما یستحق أدائہ وہو حرام من المتمکن ولو کان غنیا، ولکنہ لیس متمکن جاز لہ التأخیر إلی الإمکان ذکرہ النووي۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

dhokay say qarz muaf karwanay ka hukum, Order for remission / removal / forgiving of debt / loan by fraud

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance