عنوان: صحیح بخاری میں ضعیف حدیث (6154-No)

سوال: کیا بخاری شریف میں کوئی حدیث ضعیف ہے؟

جواب: ١. جمہو رعلماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بخاری شریف کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب ہے، اور اس میں جو احادیث ذکر کی گئی ہیں ، سب صحیح روایات ہیں ، ان میں کوئی ضعیف حدیث نہیں ہے۔
اہل علم نے بخاری شریف کو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کا لقب محض عقیدت اور محبت میں نہیں دیا، بلکہ اس دور کے، اور اس دور کے بعد کے محدثین نے خوردبین کی نگاہ کی طرح ایک ایک روایت کا جائزہ لیا، سند کو پرکھا، متن کو جانچا اور سب کچھ کرنے کے بعد "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کا لقب دیا۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اپنی کتاب کے لکھنے سے فارغ ہوئے تو اس کتاب کو اپنے اساتذہ امام احمد بن حنبل، حضرت علی مدینی اور یحیی معین رحمہم اللہ کی خدمت میں پیش کیا، یہ حضرات علم و فن حدیث کے درخشاں ستارے تھے، ان حضرات نے پوری کتاب کو بنظر عمیق پڑھنے کے بعد صرف چار احادیث کے علاوہ سب احادیث کو صحیح قرار دیا، اور جب امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اور ان کے اساتذہ کے درمیان چار احادیث میں اختلاف پیدا ہوگیا، تو بعض حضرات محدثین مثلا : امام عقیلی رحمہ اللہ نے دونوں فریقوں کے دلائل کا جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اس اختلاف میں امام بخاری کی رائے زیادہ وزنی اور زیادہ قابل قبول ہے، گویا کہ وہ چار حدیثیں بھی صحت سے خارج نہیں ہیں۔

٢. واضح رہے کہ بخاری شریف میں صحیح روایات ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام صحیح احادیث صرف بخاری شریف میں جمع کرلی گئی ہیں ، اس کے علاوہ حدیث کی کسی اور کتاب میں صحیح حدیث نہیں ہے ، کیونکہ خود امام بخاری ؒ نے واضح طور پر یہ بات فرمائی ہے کہ میں نے اپنی صحیح بخاری میں تمام صحیح احادیث جمع نہیں کی ہیں؛ بلکہ جو میں نے اپنی "صحیح" میں صحیح احادیث ذکر نہیں کی ہیں ، وہ اس سے زیادہ ہیں ، جو میں نے بخاری میں جمع کردیں ہیں۔
٣. بخاری شریف کے "اصح" ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بخاری شریف مجموعی طور پر دوسری کتابوں پرفوقیت رکھتی ہے، ہر ہر حدیث کے اعتبار سے یہ حکم نہیں ہے، اس لئے کہ دوسری کتب حدیث کی بعض صحیح احادیث بخاری شریف کی صحیح احادیث سے بھی اعلی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتح الباري: (10/1، ط: دار المعرفة)
واقتضى كلام بن الصلاح أن العلماء متفقون على القول بأفضلية البخاري في الصحة على كتاب مسلم الا ما حكاه عن أبي على النيسابوري من قوله المتقدم وعن بعض شيوخ المغاربة أن كتاب مسلم أفضل من كتاب البخاري من غير تعرض للصحة

و فیہ ایضا: (7/1، ط: دار المعرفة)
وقال أبو جعفر محمود بن عمرو العقيلي لما ألف البخاري كتاب الصحيح عرضه على أحمد بن حنبل ويحيى بن معين وعلى بن المديني وغيرهم فاستحسنوه وشهدوا له بالصحة الا في أربعة أحاديث قال العقيلي والقول فيها قول البخاري وهي صحيحة۔
وروى الإسماعيلي عنه قال لم أخرج في هذا الكتاب الا صحيحا وما تركت من الصحيح أكثر

و فیہ ایضا: (364/1، ط: دار المعرفة)
قد استدرك الدارقطني على البخاري ومسلم أحاديث فطعن في بعضها وذلك الطعن مبني على قواعد لبعض المحدثين ضعيفة جدا مخالفة لما عليه الجمهور من أهل الفقه والأصول وغيرهم فلا تغتر بذلك

شرح النووي على مسلم: (14/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول وكتاب البخاري أصحهما وأكثرهما فوائد ومعارف ظاهرة وغامضة وقد صح أن مسلما كان ممن يستفيد من البخاري ويعترف بأنه ليس له نظير في علم الحديث وهذا الذي ذكرناه من ترجيح كتاب البخاري هو المذهب المختار الذي قاله الجماهير وأهل الاتقان والحذق والغوص على أسرار الحديث

مجموع الفتاوى لابن تیمیۃ: (20/18، ط: دار الوفاء)
وفي البخاري نفسه ثلاثة أحاديث نازعه بعض الناس في صحتها ۔۔۔۔۔۔۔۔لكن الصواب مع البخاري ۔۔۔۔۔ والبخاري أحذق وأخبر بهذا الفن من مسلم ؛ ولهذا لا يتفقان على حديث إلا يكون صحيحا لا ريب فيه قد اتفق أهل العلم على صحته

تدريب الراوي للسيوطي: (98/1، ط: مكتبة الرياض الحديثة)
( ولم يستوعبا الصحيح ) في كتابيهما ( ولا التزماه ) أي استيعابه ، فقد قال البخاري : ما أدخلت في كتاب « الجامع » إلا ما صح ، وتركت من الصحاح مخافة الطول۔

ما تمس إلیہ الحاجة لمن یطالع سنن ابن ماجۃ: (ص: 23، ط: مکتبہ رحمانیہ)
ولم یلتزما أیضاً بإخراج جمیع ما یحکم بصحتہ من الأحادیث فإنھما قد صححا أحادیث لیست في کتابیھما کما ینقل الترمذي وغیرہ عن البخاري تصحیح أحادیث لیست عندہ بل فی السنن وغیرھا، وقد ذکرنا من قبل قول البخاري: لم أخرج في ھذا الکتاب إلا صحیحاً وما ترکت من الصحیح أکثر، وقول مسلم: ”لیس کل شیٴ عندي صحیح وضعتہ ھھنا“ وقولہ لابن وارة الحافظ حین عاتبہ علی ھذا الکتاب: إنما أخرجت ھذا من الحدیث الصحیح لیکون مجموعاً عندي وعند من یکتبہ عني فلا یرتاب في صحتھا ولم أقل أن ما سواہ ضعیف۔

قواعد في علوم الحدیث: (ص: 65، ط: ادارۃ القرآن)
علی أن دعوی أصحیة ما في الکتابین أو أصحیة البخاری علی صحیح مسلم وغیرہ إنما تصح باعتبار الإجمال ومن حیث المجموع دون التفصیل باعتبار حدیث وحدیث

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 4289 Dec 15, 2020
kia sahih bukhari mai zaeef hadees mojood hain?, Is there any weak hadith in Sahih Bukhari?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.