سوال:
محترم مفتی صاحب! "الدنیا مزرعة الآخرة" کیا یہ کسی حدیث کے الفاظ ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ مندرجہ بالا کلمات کا بعینہ ثبوت نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ میں نہیں ملتا ہے، لہذا اس کو نبیﷺ کی جانب نسبت کر کے بیان کرنے سے احتراز ضروری ہے، تاہم اتنی بات ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ شریعتِ مطہرہ صرف احادیث مبارکہ سے ثابت نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم، احادیث مبارکہ، اجماع اور قیاس چاروں ہی دین کی باتوں کے اثبات کے دلائل ہیں، لہذا کسی بات کا روایت میں نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ نیز کسی بات کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف احادیث مبارکہ میں ہی ہو، بلکہ ممکن ہے کہ وہ بات قرآن کریم میں صراحت سے موجود ہو یا مفہوم ِ قرآن سے مستفاد ہو۔
درج بالا کلمات بھی اسی قبیل سے ہیں، ان کا مفہوم ومضمون تو بالکل درست ہے، بلکہ قرآن مجید کی آیت سے مستفاد ہے، مگر نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ سو ایسی صورت میں ذکر کردہ کلمات کو نبی کریم ﷺ کی جانب نسبت کرکے بیان کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔
دریافت کردہ کلمات کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ کلمات کو بطور حدیث علامہ عراقی، مقدسی، سخاوی، صغانی وغیرہ حضرات رحمہم اللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، بلکہ بعض نے تو موضوع تک قرار دیا ہے۔ تاہم ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ " ان کلمات کا مفہوم اللہ رب العزت کے فرمان {من كان يريد حرث الآخرة نزد له في حرثه} (جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو، ہم اس کے لیے اس کھیتی میں برکت دیں گے) سے مستفاد ہوتا ہے۔ اسی طرح عجلونی رحمہ اللہ نے کلمات کو حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق منقول روایت کے مشابہ قرار دیا ہے، جس میں حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "دنیا کو گزرگاہ بناؤ، اسے آباد نہ کرو، دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے، بدنظری دل میں شہوت پیدا کرتی ہے"۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہونے کا مطلب:
اس جملے کا مفہوم شارحین حدیث نے یوں ذکر کیا ہے کہ جس طرح ایک کسان اپنی کھیتی پر محنت کرتا ہے، حالانکہ اس کھیتی سے ملنے والا کوئی اناج اور پھل اس کو نظر نہیں آرہا ہوتا ہے، پھر بھی محنت کو جاری رکھتا ہے، اور بالآخر ایک دن اپنی محنت کے بقدر اس کا پھل پالیتا ہے، اسی طرح دنیا بھی اس کھیت کی مانند ہے جس میں انسان اعمال کے ذریعہ محنت کرتا ہے، عبادات میں خود کو تھکاتا ہے، اگرچہ فی الوقت تو (بسا اوقات) اس کو اپنی محنت کا ثمرہ دکھائی نہیں دیتا، مگر آخرت میں اس کا انعام ضرور پالے گا۔( الكوكب الدري على جامع الترمذي، أبواب الزهد عن رسول الله ﷺ، 227/3، الناشر: مطبعة ندوة العلماء الهند)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
المغني عن حمل الأسفار في الأسفار، في تخريج ما في الإحياء من الأخبار، لأبي الفضل زین الدین العراقي(ت 806ه)، (کتاب التوبة، 1354/1، الناشر: دار ابن حزم، بيروت – لبنان):
حديث «الدنيا مزرعة الآخرة»: لم أجده بهذا اللفظ مرفوعا، وروى العقيلي في "الضعفاء" وأبو بكر بن لال في "مكارم الأخلاق" من حديث طارق بن أشيم: "نعمت الدار الدنيا لمن تزود منها لآخرته"، الحديث، وإسناده ضعيف.
المقاصد الحسنة لشمس الدین السخاوي(ت 902 ه)، (حرف المیم، 648 /1، المحقق: محمد عثمان الخشت، الناشر: دار الكتاب العربي – بيروت):
حَدِيث: "الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ"، لم أقف عليه، مع إيراد الغزالي له في "الإحياء"، وفي "الفردوس" بلا سند عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعا: "الدنيا قنطرة الآخرة فاعبروها، ولا تعمروها"، وفي "الضعفاء" للعقيلي و"مكارم الأخلاق" لابن لال من حديث طارق بن أشيم رفعه: "نعمت الدار الدنيا لمن تزود منها لآخرته"، الحديث. وهو عند الحاكم في "مستدركه" وصححه، لكن تعقبه الذهبي: بأنه منكر، قال: "وعبد الجبار يعني راويه لا يعرف".
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف ب"الموضوعات الکبری، للملا علي القاري الهروي (ت 1014ه)، (فصل، رقم الحدیث:204، رقم الصفحة:99، المحقق: محمد الصباغ، الناشر: دار الأمانة / مؤسسة الرسالة – بيروت):
حديث "الدنيا مزرعة الآخرة"، قال السخاوي: لم أقف عليه مع إيراد الغزالي له في "الإحياء"، قلت: معناه صحيح، يقتبس من قوله تعالى {من كان يريد حرث الآخرة نزد له في حرثه}
كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس، لإسماعیل بن محمد العجلوني (ت 1162ه)، (حرف الدال المهملة، 412/1، الناشر: مكتبة القدسي، لصاحبها حسام الدين القدسي – القاهرة):
"الدنيا مزرعة الآخرة": قال في "المقاصد": لم أقف عليه، مع إيراد الغزالي له في "الإحياء"، وقال القاري: "قلت: معناه صحيح، مقتبس من قوله تعالى … (من كان يريد حرث الآخرة نزد له في حرثه) … وقال ابن غرس: لا يعرف، وأنشدوا: إذا أنت لم تزرع وأبصرت حاصدا … ندمت على التفريط في زمن البذر۔ ورواه في "الفردوس" بلا سند عن ابن عمر-رضي الله عنهما- مرفوعا بلفظ "الدنيا قنطرة الآخرة"، وذكره الصغاني بإسقاط الآخرة، "فاعبروها ولا تعمروها"، وفي "الضعفاء" للعقيلي و"مكارم الأخلاق" لابن لال عن طارق بن أشيم رفعه :"نعمت الدار الدنيا لمن تزود منها لآخرته" - الحديث، وذكره الحاكم وصحّحه، لكن تعقبه الذهبي بأنه منكر، ورواية عبد الجبار لا يعرف، ولابن عساكر عن يحيى بن سعيد قال: كان عيسى -عليه الصلاة والسلام- يقول: "اعبروا الدنيا ولا تعمروها، وحب الدنيا رأس كل خطيئة، والنظر يزرع في القلب الشهوة".
الكوكب الدري على جامع الترمذي،للمحدث رشيد أحمد الكنكوهي (ت 1323 ه)، (أبواب الزهد عن رسول الله ﷺ، 227/3، جمعها ورتبها: محمد يحيى بن محمد إسماعيل الكاندهلوي (ت 1334 ه)، المحقق: محمد زكريا بن محمد يحيى الكاندهلوي، الناشر: مطبعة ندوة العلماء الهند):
وتمام ذلك: أن الدنيا مزرعة الآخرة، وفيها التجارة التي يظهر ربحها في الآخرة، فمن استعمل فراغه وصحته في طاعة الله فهو المغبوط، ومن استعملهما في معصية الله فهو المبغون؛ لأن الفراغ يعقبه الشغل، والصحة يعقبها السقم ولو لم يكن إلا الهرم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی