سوال:
مفتی صاحب ! غلام حسین کا انتقال ہوا، اس کے شرعی ورثاء میں صرف مرحوم بھتیجے کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ براہ کرم وضاحت فرمادیں کہ ان تینوں میں سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب: صورت مسئولہ میں غلام حسین کی میراث اس کے مرحوم بھتیجے کی صرف مذکر اولاد کو ملے گی، مؤنث اولاد میراث سے محروم رہے گی، کیوں کہ بھتیجے کی مذکر اولاد عصبہ میں داخل ہے، جبکہ مؤنث اولاد ذوی الارحام ہیں، اور عصبات کی موجودگی میں ذوی الارحام کو کچھ نہیں ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السراجی: (احوال العصبة، ص: 36، ط: مکتبة البشری)
اما العصبۃ بنفسہ فکل ذکر لا تدخل فی نسبتہ الی المیت الانثی، وھم اربعۃ اصناف: جزء المیت، و اصلہ،و جزء ابیہ ، وجزء جدہ۔۔۔۔۔۔ ثم جزء ابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا۔
الدر المختار: (فصل فی العصبات: 783/6، ط: سعید)
ان ابن الاخ لا یعصب اختہ، کا العم لا یعصب اختہ ، و ابن العم لا یعصب اختہ، وابن المعتق لا یعصب اختہ، بل المال للذکر دون الانثی؛ لانھا من ذوی الارحام۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی