سوال:
ایک شخص فوت ہوگیا ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، والدین اور بھائی بہن بھی زندہ نہیں۔ شرعی ورثاء میں بیوہ، دو بھتیجے اور چھے بھتیجیاں ہیں۔ وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ اگر بیوہ، بھتیجے اور بھتیجیوں کے علاوہ مرحوم چچا کا کوئی اور شرعی وارث نہ ہو تو مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو آٹھ (8) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو دو (2) اور ہر ایک بھتیجے کو تین (3) حصے ملیں گے، جبکہ بھتیجوں کے ہوتے ہوئے بھتیجیوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو
بیوہ کو ٪ 25 فیصد، اور ہر ایک بھتیجے کو ٪ 37.5 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیة: 12)
ولھن الربع مما ترکتم إن لم یکن لکم ولد، فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم ۔۔۔۔الخ
الدر المختار: (744/4، ط: سعید)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل".
و فیه ایضاََ: (792/6، ط: سعید)
باب توريث ذوي الأرحام (هو كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الزوجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی