عنوان: دوستی کرنے کا معیار (626-No)

سوال: کیا کسی سے دوستی کے تعلق کو مرضی سے جوڑنا اور توڑنا دین میں جائز ہے ؟ کیوں کہ ایک جگہ میں نے پڑھا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور المرء علی دین خلیلہ اور اسی طرح اگر عطر فروش اور بھٹی والے سے ہاتھ ملانے والی حدیثیں دیکھیں تو اختیار کا جواز معلوم ہوتا ہے، مگر اگر کوئی بہت پرانا دوست ہو اور دوست میں عیب ہو اور سمجھانے پر بھی وہ باز نہ آئے تو قطع تعلق کرنا کیسا ہے ؟

جواب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)
[الکھف:۲۸]
ترجمہ:
اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو، جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ"
(مسند أبي داودالطیالسی :4/299،ط ،دار هجر - مصر)
ترجمہ: "آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔"
حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر، فحامل المسک اما أن یحذیک، واما أن تبتاع منہ، واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ، ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک، واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ۔
( صحیح بخاری ،باب المسک: 2/1580، ط ،الطاف اینڈ سنز،کراچی)
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے، کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگا یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے، جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘
مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ اپنے داماد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، أَنَّهُ قَالَ لِخَتَنِهِ مُغِيرَةَ: «يَا مُغِيرَةُ، انْظُرْ كُلَّ أَخٍ لَكَ، وَصَاحِبٍ لَكَ، وَصَدِيقٍ لَكَ، لَا تَسْتَفِيدُ مِنْهُ فِي دِينِكَ خَيْرًا، فَانْبِذْ عَنْكَ صُحْبَتَهُ، فَإِنَّمَا ذَلِكَ لَكَ عَدُوٌّ» . وَقَالَ: " يَا مُغِيرَةُ النَّاسُ أَشْكَالٌ: الْحَمَامُ مَعَ الْحَمَامِ، وَالْغُرَابُ مَعَ الْغُرَابِ، وَالصَّعْوُ مَعَ الصَّعْوِ، وَكُلٌّ مَعَ شَكْلِهِ "
(مساوئ الأخلاق ومذمومها، للشیخ الخرائطي، ص ،313 ط، مكتبة السوادي للتوزيع، جدة)
ترجمہ: اے مغیرہ! تمہارا ہر وہ بھائی ،ساتھی اوردوست جس سے تمہیں دین کے اعتبار سے بھلائی نہ پہنچے تو اس کاتعلق چھوڑ دو، وہ یقیناً تمہارا دشمن ہے اور فرمایا: اے مغیرہ! لوگوں کی مختلف صورتیں ہیں، کبوتر، کبوتر کے ساتھ، اور کوا، کوے کے ساتھ، اور ممولا، ممولے کے ساتھ ہے اور ہر انسان اپنے ہم شکل کے ساتھ ہے۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کسی سے دوستی کرنے میں باختیار ہے اور ہر آدمی کو چاہیے کہ اچھے اور دیندار سے دوستی کرے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2021 Jan 16, 2019
dosti karny ka mayar, standard of friendship

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.