سوال:
مفتی صاحب ! کچھ لوگوں نے مجھے کتابیں خریدنے کے لیے سو روپے دیے ہیں، تو کیا میں ان کو بتائے بغیر کمیشن کے طور پر ان اس ایک سو دس روپے لے سکتا ہوں؟
جواب: مذکورہ صورت میں کتابوں کی جو قیمت ہو٬ اس سے اضافی پیسے لیکر بتائے بغیر کمیشن کے طور پر پیسے رکھنا، شرعا جائز نہیں ہے۔
اگر کتابیں لانے کا کمیشن لینا مقصود ہو٬ تو شروع میں ہی اس کے ساتھ معاملہ طے کیا جائے کہ اتنے روپے یا اتنے فیصد کمیشن لوں گا٬ تاکہ بعد میں کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ نہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآية: 188)
"وَلَا تَأْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ"۔۔۔۔الخ
مشکاۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، الفصل الثاني)
"عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ"
رد المحتار: (کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، 64/9، ط: زکریا)
" أجرةالسمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ۔"
البحر الرائق: (297/7 ط: دار الکتاب الاسلامی)
"وشرطها أن تكون الأجرة والمنفعة معلومتين لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی