عنوان: ترکہ کی تقسیم کے متعلق مختلف سوالات کے جوابات(6296-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرے شوہر کا 22 نومبر2020 کو طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا ہے، ہماری دو بیٹیاں ہیں، جو زیرِ تعلیم ہیں، میرے شوہر کے والدین حیات نہیں ہیں، البتہ میرے شوہر کے4 بھائی اور 2 بہنیں ہیں، جو شادی شدہ اور اپنے اپنے گھربار والے ہیں۔
مرحوم کا اپ ہولسٹری کا کاروبار تھا، جائے نماز، بیڈ شیٹ، تولیہ وغیرہ فروخت کرتے تھے، دوکان کرائے پر تھی، پردوں کی فٹنگ اور آفسوں کی بلائنڈز کے آرڈر لیکر ان کا کام کرتے تھے، بیماری کے سبب دوکان ختم ہوگئی اور تمام قابلِ فروخت سامان گھر پر لے آئے، گھریلو طور پر یہ سامان فروخت ہوتا تھا اور کچھ گھریلو اخراجات میں مدد مل جاتی تھی۔
مرحوم کی قلیل آمدنی کے سبب میرے گھریلو اخراجات، تعلیم، رہائش، خوراک، دوا علاج وغیرہ کا بیشتر حصہ میرے میکے کے قریبی اعزہ اور ہمدردان کے تعاون سے ممکن ہوا اور تاحال ہورہا ہے۔
طویل بیماری کے باعث ان کے عزیز واقارب اور ہمدردان بھی ان کی مالی امداد کرتے رہے، جو وہ اپنے انداز سے خرچ اور پس انداز کرتے رہے۔
اس وقت ان کے چار اکاؤنٹس میزان بینک کی مختلف شاخوں میں موجود ہیں، تین ان کے ذاتی ہیں اور ایک میں مجھے شریک کیا ہے، لیکن اس کا لین دین اور مالی معاملات ان ہی کے پاس تھے، میری کوئی ذاتی رقم اس میں نہیں ہے۔
بقایا 3 ذاتی اکاؤنٹس میں سے دو اکاؤنٹس ایسے ہیں، جس میں تکافل کی دو اسکیمیں لی ہوئی تھیں۔
بچیوں کے لئے child marriage اسکیم جس میں کچھ سالوں تک اکاؤنٹس میں سے دو ہزار روپے بینک لیتا رہتا ہے، اور مدت پوری ہونے پر وہ انہیں ادا کردے گا۔
دو سال سے کچھ عرصہ زیادہ سے یہ دے رہے تھے اور ابھی کافی مدت باقی ہے۔
اس پس منظر میں مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ان کا قابلِ تقسیم ترکہ کیا ہوگا، اس لئے مجھے ان سوالات کے جوابات ازاہِ کرم عنایت فرمائیں:
1. دکان کا بچا ہوا مال، پردوں کی فٹنگ کے لوازمات (ریلنگ، کلپ، اسکرو وغیرہ) ڈرل مشین اور دیگر اوزار، کیا یہ سب ترکہ شمار ہوگا، جس کی تقسیم شرعی طریقے سے مجھے کرنی ہوگی؟
2. تکافل (Takful) کی child marriage اسکیم کی رقم پر صرف بیٹیوں کا حق ہے یا وہ بھی قابلِ تقسیم ترکہ ہے؟
3. مرحوم کا ذاتی گھریلو سامان، بستر کمبل، جوتے چپلیں، ملبوسات، دوائیں، موبائل فون، کیا یہ بھی قابل تقسیم ترکہ ہے؟
4. 22 سالہ رفاقت میں انہوں نے جو گھر کی ضروریات کا سامان خریدا، جیسے: برتن، استری، تخت، پنکھا، فریج یا ایسی ہی گھریلو اشیائے ضروریہ جو ہم اب بھی استعمال کر رہے ہیں، کیا یہ بھی قابل تقسیم ترکہ ہے؟
5. مرحوم آخری 4 سال رمضان کے روزے نہیں رکھ سکے، یہ فدیہ بطورِ قرض میں مرحوم کے ترکہ میں سے ادا کردوں؟
اللہ مجھے وراثت کی تقسیم میں کسی بھی غلطی سے بچالے، آپ سے درخواست ہے کہ جوابات جلد عطاکر دیں۔

جواب: 1. کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اس کی مملوکہ تمام اشیاء، خواہ کپڑے ہوں یا روز مرہ کی ذاتی استعمال کی اشیاء، سب اس کے ترکہ میں شمار ہوتی ہیں، اسی طرح جو گھریلو سامان اپنی زندگی میں اپنی جیب سے خریدتا رہا ہو، وہ بھی اس کی ملکیت شمار ہوتا ہے، جو مرنے کے بعد حسبِ حکمِ شریعت ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے اور ایسا گھریلو سامان جو میاں بیوی نے آپس میں مشترکہ طور پر خریدا ہو، اس میں اگر بیوی نے اپنے شوہر کے ساتھ تعاون اور احسان کے طور پر شرکت کی تھی، تو وہ سامان بھی مرحوم کے ترکہ میں ہی شمار ہوتا ہے، لیکن اگر بیوی نے بطورِ شریک کے اس سامان کی خریداری میں شرکت کی ہو، تو ایسی صورت میں اتنا حصہ ترکہ میں شمار ہوتا ہے، جتنے حصہ میں شوہر نے شرکت کی تھی اور وراثت بھی اتنے حصے میں جاری ہوتی ہے۔
پس صورت مسئولہ میں وہ تمام چیزیں جو مرحوم کی ملکیت میں تھیں، اور وہ ان چیزوں میں مالکانہ تصرف کا اہل تھا، وہ سب چیزیں مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر میراث میں تقسیم ہونگی، چاہے وہ نقدی کی شکل میں ہوں، بینک اکاؤنٹ ہوں یا گھریلو چیزیں ہوں۔
2. جو بینک اکاؤنٹ بیوی کے نام پر ہے، وہ بھی مرحوم کے ترکہ میں شمار ہوگا، کیونکہ صرف کسی کے نام پر اکاؤنٹ کھلوانے سے اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، جب تک اس کے تمام اختیارات نہ دیدیے جائیں۔
3. چائلڈ میرج پالیسی (child marriage policy) کا جواب اس پالیسی کی مکمل تفصیل اور تنقیح پر موقوف ہے، لہذا اس پالیسی کی مکمل تفصیل فراہم ہونے کے بعد اس کا جواب دے دیا جائے گا۔
4. اگر مرحوم نے روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی، تو ایک تہائی (1/3) ترکہ میں سے اس کی ادائیگی کی جائے گی، لیکن اگر وصیت نہیں کی تھی، تو ورثاء پر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہے، تاہم اگر تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی سے مرحوم کے روزوں کا فدیہ ادا کریں تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، اور امید ہے کہ مرحوم کو آخرت کی باز پرس سے نجات حاصل ہوجائے۔
5. مرحوم کی تجھیز وتکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو اڑتالیس (48)حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو چھ (6)، دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سولہ (16)، چار بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو(2) اور دونوں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو ایک(۱) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد
ہر ایک بیٹی کو %33.33 فیصد
ہر ایک بھائی کو %4.16 فیصد
ہر ایک بہن کو %2.08 فیصد ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11- 12)
یُوصِیکُمُ اللَّہُ فِی أَوْلَادِکُم لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ....الخ
فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم ۔۔۔۔ الخ

شرح المجلة: (المادۃ: 837)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لانہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض''.

الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
''بخلاف جعلتہ باسمک فإنہ لیس بہبۃ''۔

رد المحتار: (27/2، ط: دار الفکر)
ثم اعلم انہ اذا اوصی بفدیۃالصوم یحکم بالجواز قطعا لانہ منصوص علیہ،واما اذا لم یوص فتطوع الوارث فقد قال محمد فی الزیادات انہ یجزیہ ان شاء اللہ تعالی۔۔۔۔الخ

و فیه ایضا: (559/4، ط: سعید)
الترکہ فی الاصطلاح ما ترکہ المیت من الاموال صافیا عن تعلق حق الغیر۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1435 Dec 23, 2020
tarkay ki taqseem kay mutalliq sawalat kay jawabat, Answers to various questions related to distribution of inheritance

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.