سوال:
مفتی صاحب اس حدیث کی وضاحت فرما دیں: ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے روایت کی کہ انہوں نے حبیب بن ثابت سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ظہر، عصر اور مغرب، عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔ وکیع کی روایت میں ہے ( سعید نے ) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا: آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا : تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا: آپﷺ نے کیا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟ اہھوں نے کہا کہ آپ نے چاہا اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔
جواب: نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
دلائل
(1) نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
(الف)اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً(سورة النساء ۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔
(ب)حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ (سورة البقرة ۲۳۸)ترجمہ:نمازوں کی حفاظت کرو۔
مفسر قرآن علامہ ابن کثیر(م774ھ) اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔(۱)
(ج) قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲)میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ (۲)متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم ﷺنے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔(۳)
(2) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے نبی کریم ﷺکونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ نے جمع فرمائیں ‘‘۔(بخاری،حدیث نمبر:1682)(۴)
اس روایت میں آپ ﷺ کے فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی(م676ھ) رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے کہ ‘‘قبل ميقاتها’’سے مراد عام عادت کے مطابق مقرروقت سے پہلے پڑھنا ہے نہ کہ طلوع فجر سے پہلے پڑھنا کیونکہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ طلوع فجر سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے۔(۵)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔(سنن ترمذی،حدیث نمبر:188)(۶)
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ:امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔(۷) ، اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمررضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔
اب باقی رہی بات ان روایات کی جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وہ احادیث مبارکہ ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔(۸)
درج ذیل روایات سے بھی پتا چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں تھا۔
چنانچہ عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے رسول اللہ ﷺکودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے، یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔‘‘(بخاری،حدیث نمبر: 1109)(۹)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ ﷺجب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتےاور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 704)(۱۰)
خلاصہ کلام:
قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)تفسير ابن كثير:(1/645،ط:دارطيبة)
يأمر الله تعالى بالمحافظة على الصلوات في أوقاتها، وحفظ حدودها وأدائها في أوقاتها
(۲)القرآن الکریم،النساء:۱۰۲
وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك وليأخذوا أسلحتهم فإذا سجدوا فليكونوا من ورائكم ولتأت طائفة أخرى لم يصلوا فليصلوا معك وليأخذوا حذرهم وأسلحتهم ود الذين كفروا لو تغفلون عن أسلحتكم وأمتعتكم فيميلون عليكم ميلة واحدة ولا جناح عليكم إن كان بكم أذى من مطر أو كنتم مرضى أن تضعوا أسلحتكم وخذوا حذركم إن الله أعد للكافرين عذابا مهينا
(۳)سنن النسائي:( 2/17،رقم الحديث:662،ط:مكتب المطبوعات الإسلامية)
عن أبي عبيدة قال: قال عبد الله: «إن المشركين شغلوا النبي صلى الله عليه وسلم عن أربع صلوات يوم الخندق، فأمر بلالا فأذن، ثم أقام فصلى الظهر، ثم أقام فصلى العصر، ثم أقام فصلى المغرب، ثم أقام فصلى العشاء»
(۴)صحیح البخاري:(2/166،رقم الحديث:1682،ط:دارطوق النجاة)
عن عبد الله رضي الله عنه قال: ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة بغير ميقاتها، إلا صلاتين: جمع بين المغرب والعشاء، وصلى الفجر قبل ميقاتها "
(۵)(حاشیة صحیح البخاري، 228/1، رقم الحاشية: 7، ط: قدیمی کتب خانہ)
'' المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين''۔
(۶)سنن الترمذي:(1/259،رقم الحديث:188،ط:دارالغرب الإسلامي)
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر.
(۷)موطأ محمد:(1 /572 , ط، قدیمی کتب خانہ کراچی )
قال محمد: بلغنا , عن عمر بن الخطاب , أنه «كتب في الآفاق، ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين، ويخبرهم أن الجمع بين الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائر» , أخبرنا بذلك الثقات، عن العلاء بن الحارث، عن مكحول.
(۸)(درس ترمذی بتغیر: 444/1, دارالعلوم کراچی )
(۹)صحیح البخاري:(2/46،رقم الحديث:1109،ط:دارطوق النجاة)
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير في السفر، يؤخر صلاة المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»
(۱۰)صحيح مسلم:(1/489،رقم الحديث:704،ط:دارإحياء التراث العربي)
عن أنس بن مالك، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس، أخر الظهر إلى وقت العصر، ثم نزل فجمع بينهما، فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل، صلى الظهر، ثم ركب»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی