عنوان: دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرکے پڑھنے سے متعلق حدیث کی تحقیق و تشریح(633-No)

سوال: مفتی صاحب اس حدیث کی وضاحت فرما دیں: ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے روایت کی کہ انہوں نے حبیب بن ثابت سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ظہر، عصر اور مغرب، عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔ وکیع کی روایت میں ہے ( سعید نے ) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا: آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا : تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا: آپﷺ نے کیا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟ اہھوں نے کہا کہ آپ نے چاہا اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔

جواب: نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
دلائل
(1) نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً
(سورة النساء ۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔
حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ (سورة البقرة ۲۳۸)
ترجمہ:نمازوں کی حفاظت کرو۔
مفسر قرآن علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔
قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲)میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔
(2) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا.‘‘
(صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع:228/1، ط قدیمی کتب خانہ )
ترجمہ:’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ نے جمع فرمائیں ‘‘۔
اس روایت میں آپ ﷺ کے فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:
'' المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين''۔
(حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية: 7، جلد 1 ص: 228/1, ط قدیمی کتب خانہ)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:48/1، ط قدیمی کتب خانہ کراچی)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔
روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فرمان ہے،جس کی بنیاد بھی خود حدیثِ مبارکہ ہے،جس میں انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ:
’’يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ‘‘۔
(موطأ محمد، باب الجمع بین الصلاتین في السفر:572/1 , ط، قدیمی کتب خانہ کراچی )
امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے، اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمررضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔
اب باقی رہی بات ان روایات کی جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وہ احادیث مبارکہ ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
(درس ترمذی بتغیر: 444/1, دارالعلوم کراچی )
درج ذیل روایات سے بھی پتا چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا حقیقتاً نہیں۔
چنانچہ عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘
(صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر:245/1، ط ، قدیمی کتب خانہ کراچی )
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے، یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ.‘‘
(صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر: 245/1، ط ، قدیمی کتب خانہ کراچی )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتےاور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔
خلاصہ کلام
قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1381 Jan 18, 2019
Jama beenus salateen ka hukum/hukm, Ruling on praying two prayers in one time

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.