سوال:
بینک منیجر نے اپنی تنخواہ اور سودی بینک سے لون لیکر گھر بنایا،
اب اگر وہ بینک کی ملازمت چھوڑ کر توبہ کرکے کسی اور کاروبار میں جانا چاہتا ہو تو کیا اس کا بنایا ہوا گھر اسکی جائیداد شمار ہوگا، نیز
بینک کی سروس میں بنائی گئ سہولیات سے استفادہ کر سکتا ہے؟
جواب: سودی بینک میں مینجر کے عہدہ پر نوکری کرنا، جس میں سودی معاملات میں براہ راست معاونت لازم آتی ہے٬ ناجائز اور حرام ہے٬ اور اس کے عوض حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حلال نہیں٬ جس کا اصل حکم یہ ہے کہ اسے اصل مالک تک لوٹانا واجب ہے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ مالک معلوم نہیں ہے٬ اس لئے اتنی رقم کو بلا نیت ثواب صدقہ کرنا شرعاً لازم ہے٬ ایسی حرام آمدنی کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں٬ لہذا مذکورہ صورت میں مکان وغیرہ میں جتنا حرام مال لگایا گیا ہے٬ اتنی رقم صدقہ کرنے کے بعد اس مکان سے استفادہ کرنا جائز ہوگا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (239/1)
"لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربا وموکلہ وشاھدیہ وکاتبہ"
معارف السنن: (باب ما جاء لا تقبل صلاۃ بغیر طھور، 34/1)
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایۃ وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء … قال: إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبۃ"
رد المحتار: (مطلب البیع الفاسد لا یطیب له و یطیب للمشتری منه، 145/4)
"(قولہ الحرام ینتقل) ای تنتقل حرمتہ وان تداولتہ الایدی وتبدلت الاملاک، قولہ: ولا للمشتری منہ فیکون بشرائہ منہ مسیئا لانہ ملکہ بکسب خبیث وفی شرائہ تقریر للخبث ویؤمر بما کان یؤمر بہ البائع من ردہ علی الحربی"
و فیه ایضاً: (مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، 99/5، ط: سعید)
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی