سوال:
عصر کی نماز سے متعلق میرا ایک سوال ہے، یہاں جرمنی میں مسجدوں میں عصر کی نماز شافعی مسلک کے مطابق متل اول میں نماز پڑھتے ہیں، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے کہ میں ان کے ساتھ شامل ہوں یا اگر کوئی دوسری ممکنہ صورت حال نہ ہو تو میں خود ہی بہتر طریقے سے عصر کی نماز ادا کروں؟
جواب: واضح رہے کہ فقہ حنفی میں راجح قول کے مطابق عصر کی نماز کے وقت کی ابتدا مثلِ ثانی یعنی ہر چیز کے سائے کے (زوال کے وقت کے سائے کے) علاوہ دو مثل یعنی دوگنا ہوجانے کے بعد ہوتی ہے، اس لیے عصر کی نماز مثلِ ثانی کے بعد ہی ادا کرنی چاہیے، البتہ اگر کوئی عذر یا مجبوری ہو تو چونکہ آئمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے ساتھ احناف میں سے حضرات صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بھی مثل اول میں عصر کی نماز پڑھنا جائز ہے، لہٰذا عذر یا مجبوری کی وجہ سے مثل اول میں عصر کی نماز ادا کر لی جائے تو عصر کی نماز ادا ہوجائیگی، لیکن اس کا معمول بنا لینا درست نہیں ہے۔
عام حالات میں مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے، کیونکہ احناف کے نزدیک راجح قول یہی ہے، لہذا جہاں آپ رہائش پذیر ہیں اگر وہاں قریب میں کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق مثل ثانی کے بعد عصر کی نماز ادا کی جاتی ہو تو آپ وہیں نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں۔
اور اگر ایسی مسجد نہ ہو اور اس جگہ سب کا معمول ہی مثل اول کے بعد عصر کی نماز پڑھنے کا ہو تو جماعت کے ترک کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ مل کر باجماعت مثل ثانی میں عصر کی نماز ادا کر لی جائے۔ہاں! اگر کسی وجہ سے جماعت رہ جائے تو انفرادی نماز پڑھتے ہوئے مثل ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز ادا کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسی: (142/1، ط: دار المعرفۃ)
قال (ووقت الظهر من حين تزول الشمس إلى أن يكون ظل كل شيء مثله) في قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى وقال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - لا يدخل وقت العصر حتى يصير الظل قامتين ولا خلاف في أول وقت الظهر".
الدر المختار مع رد المحتار: (359/1، ط: دار الفکر)
(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى۔۔۔۔۔۔۔(ووقت العصر منه إلى) قبيل (الغروب)۔
(قوله: وعليه عمل الناس اليوم) أي في كثير من البلاد، والأحسن ما في السراج عن شيخ الإسلام أن الاحتياط أن لا يؤخر الظهر إلى المثل، وأن لا يصلي العصر حتى يبلغ المثلين ليكون مؤديا للصلاتين في وقتهما بالإجماع، وانظر هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا، والظاهر الأول بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی