سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام قرآن و سنت کی روشنی میں حسب ذیل حقائق کے بارے میں جو میں حلفاً تحریر کر رہی ہوں
’’ استفساء ‘‘
میری شادی مورخہ 17 فروری 2019 کو مسمی ..... کے ساتھ انجام پائی، شادی کے دو سے تین ماہ بعد ہی میرے شوہر نے بلاوجہ معمولی معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا اورتنازعہ بنا کر اپنے گھر والوں کے سامنے مجھ سے لڑنا جھگڑنا اپنا معمول بنا لیا، اور بعض اوقات تو بے انتہا اشتعال میں بھی آجاتے تھے، ان لڑائی جھگڑوں کے بعد ہمارے درمیان صلح و صفائی کرا دی جاتی تھی، پھر جب بھی میں اپنے میکہ جانے کی تیاری کرتی تو میرے شوہر اکثر و بیشتر مجھ سے کہتے کہ میں تمہیں تمہاری امی کے گھر تمہارے سامان سمیت بجھوا دوں گا۔
بعد ازاں جب میں ستمبر 2020ء کے ابتدائی دنوں میں اپنی امی کے گھر رکنے گئی تھی تو میرے شوہر نے مورخہ 9 ستمبر 2020ء کو میری والدہ کے موبائل پرSMS کر کے2 دفعہ واضح طور پر طلاق لکھ کر بھیجی، پھر انہوں نے فون کر کے کہا: تم اب اپنے میکہ میں ہی رہنا اور ہمارے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے، اس ناگہانی واقعہ اُفتاد سے ہم سب پریشان ہوگئے، فوری طور پرمیرے والد نے میرے شوہر کے گھر والوں (والدین، بھائی، ماموں سمیت) سے بات کر کے انہیں بتایا کہ تمہارا بیٹا اتنا بڑا کام کرچکا ہے، اس نے میری بیٹی کو دو طلاقیں موبائل پر بذریعہ SMS دی ہیں، تمہیں اس کے بارے میں معلوم ہے؟ جواب میں ان کے گھر والوں نے کہا کہ نشاط غصہ میں تھا، اس لئے اس سے غلطی ہوگئی ہے۔
میرے والد نے میرے شوہر کے والد سے کہا کہ میں اس معاملے میں آپ لوگوں کی موجودگی میں پہلے مفتی صاحب سے مشورہ کروں گا، اس کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاؤں گا، اس کے لئے آپ لوگوں کو میرے ساتھ چلنا ہوگا، جس پر میرے شوہر کے والد، ماموں اور ان کے بھائی نے یکساں موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آپ، آپ کی بیٹی یُسریٰ اور دیگر ہمارے مفتی صاحب کے پاس آجائیں، ہم مفتی صاحب کو ساری صورتحال بتا کر اس مسئلہ کا حل معلوم کرتے ہیں، میں اپنے والد/والدہ کے ہمراہ اپنے سسرال گئی تو میرے سسرال والے ہمیں اپنے جاننے والےمفتی صاحب کے گھر لے گئے۔
مفتی صاحب نے سب گھروالوں کے سامنے مجھ سے اور میرے شوہر سے ایک ایک بات کی تفصیل معلوم کی، پھر بعد ازاں انہوں نے میرے شوہر سے فرمایا کہ تمہارے اس عمل کے نتیجہ میں قرآن و سنت کی روشنی میں دو طلاقیں ہوچکی ہیں اور اب تمہارے پاس صرف ایک طلاق کا حق بچا ہے، آئندہ اگر ایسا عمل اختیار کیا تو ہمیشہ کے لئے تم دونوں کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔
بعد ازاں میرے سسرال والوں اور مفتی صاحب کے درمیان کیا بات ہوئی؟ مفتی صاحب نے فرمایا کہ تم دونوں کا اب دوبارہ نکاح ہوگا، اس کے بعد نہ جانے کیوں مفتی صاحب نے نئے مہر کے ساتھ میرا اور میرے شوہر کا دوبارہ نکاح پڑھایا، دوبارہ نکاح کے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ سسرال میں رہنے لگی، اس تمام کاروائی پر میرے والد /والدہ شدید ذہنی دباؤ اور کشمکش کا شکار تھے، ان کی قوت فیصلہ مفلوج ہوچکی تھی، اس لئے وہ اس موقع پر کچھ بھی نہیں بول سکے۔
بعد ازاں مورخہ 6 دسمبر2020 کو میرے شوہر نے اپنے گھر والوں کی موجودگی میں بلاوجہ جھگڑا کرتے ہوئے مجھ سےشدید گالم گلوچ کی اور میرے والدین کو انتہائی برا بھلا کہتے ہوئے مجھ پر الزام لگایا کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے گھر والوں کے سامنے بڑھا چڑھا بیان کر تی ہو اور یہ جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ رات 12 اور ایک بجے درمیان مجھے فون کر کے اپنے والدین کو بلوانا پڑا کہ آپ ابھی فوری طور پر آجائیں کہ ایسے ٹینشن اور اذیت کے ماحول میں میرا رہنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
میرے والدین نے میرے شوہر سے کہا کہ اب کیا بات ہوگئی، تم کیوں بات بڑھا رہے ہو؟ تو میرے شوہر نے اپنی غلطی ماننے کے بجائے مجھے ہی برا بھلا کہنا اور شورشرابہ شروع کردیا، پھر نے اپنے گھر والوں اور میرے والدین کے سامنے واضح طور پر کہا کہ میں’’ تمہاری بیٹی کو طلاق دیتا ہوں‘‘ اور ابھی اسی وقت اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے جائیں اور سامان بھی ابھی اٹھوالیں، میرے والدین اسی وقت مجھے اپنے گھر لے آئے۔
مذکورہ حقائق کی روشنی میں جو میں نے حلفاً بیان کئے ہیں، میرے سوالات حسب ذیل ہیں:
سوال نمبر1
میرے شوہر کی جانب سے مورخہ 9 ستمبر 2020ء مجھے دو طلاقیں دی گئیں، جس کا اعتراف میرے شوہر نے اپنے گھر والوں، میرے والدین اور مذکورہ مفتی صاحب کے سامنے بھی کیا تھا اور جن کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا ہے، کیا کتاب و سنت کی روشنی میں ایک وقت میں دی گئی دو طلاقیں دو ہی ہوتی ہیں یا ایک ہوتی ہے؟
سوال نمبر2
مورخہ 6 دسمبر2020 کو ہم دونوں کے گھر والوں کے سامنے میرے شوہر نے واضح طور پر مجھےتیسری طلاق دی، کیا یہ تیسری طلاق کتاب وسنت کی روشنی میں حرمت مغلظہ کے ساتھ واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟ کیا ہمارے درمیان میاں /بیوی کا رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے یا نہیں؟
سوال نمبر3
میں ان تین طلاقوں کے بعد کسی صورت بھی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، جبکہ میرا شوہر اور اس کے گھر والے صلح کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اب بھی مصالحت ہوسکتی ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں میرے سسرال والوں کا یہ طرز عمل کیسا ہے؟
سوال نمبر4
میرے شوہر نے میرا مہر ابھی تک ادا نہیں کیا ہے اور وہ میرے جہیزکا سامان بھی واپس نہیں کررہا ہے، بلکہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ جہیز کا سامان اور مہر تمہیں کسی صورت نہیں ملے گا۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا یہ عمل کیسا ہے؟ مجھے اور میرے گھر والوں کو ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟
سوال نمبر5
میرے سسرالوں کے جاننے والے مفتی صاحب نے 2 طلاقوں کے بعد جو میرا دوبارہ نکاح نئے مہر کے ساتھ پڑھایا تھا، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
سوال نمبر6
کتاب و سنت کی روشنی میں میری عدت کب سے شروع ہوگی؟ اور دوران عدت میرے لئے کیا احکامات ہیں، وہ بھی تحریر فرمادیجئے۔
براہ کرم اپنی قیمتی اور اہم مصروفیات میں سے کچھ وقت مختص فرما کتاب وسنت کی روشنی میں جوابات مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
جواب: (١،٢،٣) صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اور رجوع کا حق ختم ہو گیا ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے، تو عدت گزرنے کے بعد طرفین ( مرد اور عورت ) کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۴) اگر شوہر نے اب تک مہر ادا نہیں کیا ہے تو اس کی ادائیگی بھی شوہر کے ذمہ لازم ہے، نیز جہیز واپس لینا مطلقہ عورت کا حق ہے، لہذا شوہر کا مہر اور جہیز دینے کے بجائے دھمکیاں دینا ظلم اور زیادتی ہے، جو کہ ناجائز اور گناہ ہے۔
۵) صورت مسئولہ میں چونکہ دوطلاقوں کے بعد عورت کی عدت نہیں گزری تھی، جس کی وجہ سے مطلقہ عورت اپنے شوہر کے نکاح میں ہی تھی، اور طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں بلا نکاح رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے، لہذا مفتی صاحب کا نئے مہر کیساتھ نکاح پڑھانا درست نہیں تھا۔
٦ ) جس پاکی کی حالت میں شوہر نے طلاق دی ہے، اس کے بعد مکمل تین حیض گذرجانے کے بعد عدت پوری ہوتی ہے۔
طلاق مغلظہ کی عدت میں عورت پر ضروری ہے کہ درج ذیل امور سے اجتناب کرے:
بناؤ سنگھار نہ کرے، چوڑیاں یادیگر زیورات نہ پہنے، خوشبو نہ لگائے، مہندی نہ لگائے، ریشمی، رنگے ہوئے اور پھول دار یا شوخ رنگ کے کپڑے نہ پہنے، بلاضرورت محض زینت کے لیے سر میں تیل نہ ڈالے، سرمہ نہ لگائے، چھوٹے دندانوں کی کنگھی نہ کرے، اسی طرح عدت میں گھر سے نکلنا بھی جائز نہیں ہے، ہاں! اگر کوئی شرعی ضرورت درپیش ہو، مثلاً : سخت بیمار ہو تو طبیب کو دکھانے کے لیے جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ۔۔۔۔الخ
سنن النسائي: (کتاب الطلاق، الثلاث المجموعة و ما فیہ من التغلیظ، رقم الحدیث: 3401)
"عن محمود بن لبید قال:أخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً، فقام غضباناً۔ ثم قال: أیلعب بکتاب اللّٰہ وأنا بین أظہرکم ،حتی قام رجل وقال: یا رسول اللّٰہ ألا أقتلہ؟".
شرح النووی: (70/10، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث
السنن الکبری للبیھقی: (باب من قال من أغلق بابا، رقم الحدیث: 14480، ط: دار الکتب العلمیۃ)
قال: وأخبرنا مالك، عن ابن شهاب، أن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: إذا دخل الرجل بامرأته فأرخيت عليهما الستور فقد وجب الصداق۔
الهندية: (532/1، ط: دار الفکر)
ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها، كذا في الهداية۔
و فیھا ایضا: (585/1، ط: اتحاد، دیوبند)
علی المبتوتة والمتوفی عنہا زوجہا إذا کانت بالغة مسلمة الحدادُ في عدتہا، والحداد: الاجتناب عن الطیب، والدّہن والکحل، والحناء والخضاب․․․ إلخ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی